شاہ زین بگٹی اور بلوچستان کے مسائل

جمعہ 9 جولائی 2021

Bilal Dar

بلال ڈار

جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی شازین بگٹی کو وزیر اعظم عمران خان نے معاون خصوصی برائے ہم آہنگی بلوچستان مقرر کرتے ہوئے انہیں ناراض بلوچ رہنماوں( علیحدگی پسندوں) کے ساتھ بات چیت کا ہدف سونپا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ شازین بگٹی کو مذاکرات و فیصلہ سازی کے تمام تر اختیارات حاصل ہو نگے۔کیا شازین بگٹی کی قبائلی حیثیت و اْن صلاحیتوں کے مالک ہیں جو مذکورہ ہدف کے حصول کیلئے درکار ہیں ؟ اس سے قبل نواز شریف دور میں ناراض بلوچوں کو راضی کر کے قومی دھارے میں لانے کیلئے کس نے کیا کاوشیں کیں اور وہ کار آمد کیوں نہ ثابت ہو سکیں؟ ناراض بلوچوں کو راضی کرنے کیلئے بلوچستان میں ایسی کون سی موزوں ترین شخصیات موجود ہیں جن سے بہتر طور پرکام لیا جا سکتا ہے؟ اس تحریر میں ہم ان سوالات کا جواب دینے کی کو شش کرینگے۔

(جاری ہے)


نواز شریف کے دور حکومت تک شازین بگٹی اور انکے بھائی گہرام بگٹی پر براعمداغ بگٹی کے ساتھی اور بلوچستان میں شرپسند کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد ہوتے رہے اسی دران وہ اینٹی آیئر کرافٹ کن و دیگر اسلحہ سمیت گرفتار بھی کیئے گئے ۔ جب میر سرفراز بگٹی بلوچستان کے وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے یہ یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ وہ ڈیرہ بگٹی میں شرپسندوں کی کارروائیاں نہیں ہونے دینگے بلکہ انہیں کچل ڈالیں گے ، وہ اپنے اس دعوے میں ڈیرہ بگٹی کے مختصرہ علاقہ تک ہی کامیاب ہو سکے اور دوران شرپسند آئے روز گیس پائپ لائنز ، بجلی کے کھمبوں اور موبائل ٹاورز کو مسلسل نشانہ بنانتے رہے ۔

ذرائع کے مطابق پھر جو ذمہ داریاں سرفراز بگٹی نے سنبھال رکھی تھیں وہ شازین و گہرام کو سونپ دی گئیں جس کے بعد سے اب تک ڈیرہ بگٹی میں علیحدگی پسند وں کی کارروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں لیکن بگٹی قبائل سربراہی کے حوالے سے تقسیم ہیں سردار عالی بگٹی کو سردار بنایا گیا ہے جبکہ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ شازین کے والد مرحوم طلال بگٹی کو نواب اکبر بگٹی نے کسی معاملہ پر علاقہ بدر کیا ہوا تھا اْنہیں صرف کسی شادی یا غمی میں ڈیرہ بگٹی آنے کی اجازت تھی جبکہ اس دوران نواب اکبر بگٹی کے سب سے زیادہ قریب براعمداغ بگٹی ہی تھے۔

اگر شازین و گہرام کی ماضی میں برآعمداغ بگٹی سے قریبی تعلق تھا بھی تو اب چونکہ یہ دونوں بھائی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو چکے ہیں اس لئے براعمداغ انہیں شاہد اب زیادہ اہمیت نہ دے لیکن اسکے باوجود شازین بگٹی اب بھی براعمداغ بگٹی سے مثبت بات چیت کر نے صلاحیت رکھتے ہیں تاہم یہبات چیت اسوقت تک کامیاب نہیں ہو سکے گی جب تک سیاسی و عسکری قیادت ایک پیچ پر نہ ہوں ۔


باہر بیٹھی ناراض قیادت میں دو طرح کے افراد شامل ہیں ایک وہ جو پاکستان کے خلاف نہ صرف سخت ترین موقف رکھتے ہیں بلکہ سیکورٹی اداروں کے بقول بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائی میں بھی ملوث ہیں جن میں براعمداغ بگٹی ، ہربیار ، جاوید مینگل وغیرہ اور دوسرے وہ جو سخت موقف تو رکھتے ہیں لیکن ان پر دہشتگردی کی کارروائیوں کا کوئی الزام عائد نہیں ہوا جن میں سرفہرسرست خود ساختہ جلا وطن خان آف قلات میر سلمان داود شامل ہیں ۔


نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعدبلوچستا ن کے طول و عرض میں شدید غم و غصے کی لہر آئی اسی دوران خان آف قلات میر سلمان داود نے اپنی قبائلی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے” گرینڈ جرگہ “ بلایا گیا جس میں تمام اہم قبائلی شخصیات و عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی، اس جرگہ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خان آف قلات باہر جا کر عالمی سطح پر بلوچوں کا مقدمہ لڑیں چنانچہ اس فیصلہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے خان آف قلا ت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے لندن چلے گئے ۔

2017 کو لندن میں مقیم خان آف قلات میر سلمان داود نے راقم کو ایک ٹیلی فونک انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پرکہا تھا کہ وہ پاکستا ن کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں اور اْنہوں نے وطن واپسی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ جس گرینڈجرگہ نے اْنہیں باہر جانے کو کہا اگر وہی جرگہ انہیں وطن واپسی کیلئے کہے تو عملدرآمد کر سکتے ہیں لیکن جرگہ بلایا گیا اور نہ ہی کوئی قابل زکر شخصیت اْن سے بات چیت کرنے کیلئے لندن گئی ۔

یہ آپشن آج بھی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے اور اس سوقت قبائلی روایات کے تحت اس گرینڈ جرگہ کو بلانے کا اختیار نواب آف سراوان اسلم رئیسانی کے پاس ہے جبکہ اس ضمن میں دوسری اہم شخصیت نواب آف جھالاوان ثناء اللہ زہری ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند جن کا شمار بلوچستان کے طاقتور سردار وں میں ہوتا ہے وہ بھی کافی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ خان آف قلات کے پھوپھی زاد بھائی موجودہ وزیر اعلی جام کمال خان اور چچازاد پرنس علی احمد وغیرہ سے بھی وزیر اعظم عمران خان بہتر انداز میں کام لے سکتے ہیں ۔


2013کے عام انتخابات بلوچستان میں نواب غوث بخش باروزئی کو نگران وزیر اعلی تعینات کیا گیا ، نواب غوث بخش باروزئی نہ صرف اپنی شرافت و ایمانداری بلکہ بلوچستان میں پشتونوں کے سب سے بڑے نواب کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ، انکے مختصر نگران دور میں بھی
 باہر بیٹھی ناراض قیادت کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی۔جب ہم نے نواب غوث بخش باروزئی سے اس حوالے سے جاننے کی کو شش کی تو اْنہوں نے کہا کہ لندن میں مقیم خان آف قلات میر سلمان داود کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں ، اپنے مختصر نگران دور میں اْن سے بات چیت کیلئے لندن جاناچاہتا تھا اورمیرے ہمراہ خان آف قلات کے کزن عبدالقادر اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد بھی جانے کو تیار تھے، ہم نے اس ضمن میں اچھی خاصی تیاری بھی کر لی تھی جس میں بیک ڈور ڈپلومیسی بھی شامل تھی لیکن ویزے میں تاخیر و دیگر عوامل کی وجہ سے ہم ایسا نہ کر سکے ورانہ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم خان آف قلات کو وطن واپس آنے کیلئے آمادہ کر لیتے۔

تاہم اگر اب بھی ایسی کوئی ذمہ داری سونپی گئی تو رضاکارانہ خدمات سر انجام دینے کیلئے تیار ہوں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کی وزارت اعلی کے دور میں ناراض بلوچ رہنماوں کو راضی کرنے کیلئے زور و شور سے کاوشیں کیں گئیں ، ایک وقت ایسا بھی آیا جب یوں لگنے لگا کہ بڑی پیش رفت ہونے والی ہے لیکن یہ ساری کاوشیں اْسوقت دم توڑ گئیں جب ناراض قیادت نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے براہ راست بات چیت کرنے کی شرط عائد کر دی کیونکہ ان کا مانناتھا کہ صوبائی سیاسی قیادت کے پاس مکمل اتھارٹی نہیں ہے۔

اس ضمن میں سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ اْنہوں نے اپنے دور حکومت میں آل پارٹز کانفرنس اور عسکری قیادت کے کہنے پر براعمداغ بگٹی سے مذاکرات کی غرض سے دو ملاقاتیں کیں دوسری ملاقات میں سابق وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ بھی ہمراہ تھے لیکن براعمداغ کی جانب سے چند ایسی شرائط رکھی گئیں جن پر پیش رفت نہ ہو سکی۔


اگر وزیر اعظم عمران خان حقیقت میں ناراض بلوچوں کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو محض شازین بگٹی کے کندوں پر اتنی بھاری ذمہ داری نہ ڈالیں بلکہ مذکورہ شخصیات کو بھی آن بورڈ لیتے ہوئے موثر حکمت عملی کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھیں تو کامیابی ہو سکتی ہے بصورت دیگر اپنی ناکامیوں کو اس ایشو کے پیچھے چھپایا جا سکتا ہے جس سے بلوچستان میں مزید مایوسی جنم لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :