سردار رند کا استعفا ، بلوچستان میں سیاسی بحران

ہفتہ 31 جولائی 2021

Bilal Dar

بلال ڈار

آزاد جموں و کشمیر کے حالیہ انتخابات نے جہاں پاکستان بھر کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کئے رکھا وہی بہت سے اہم الشوزکو بھی نظر انداز کرنے مجبور کر دیاکیونکہ پہلی مرتبہ آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں میں انتہائی کشیدگی دیکھنے میں آئی ۔نظر انداز ہونے والے اہم ایشوز میں بلوچستان کی تیزی بگڑتی سیاسی صورتحال بھی ہے،آبادی کی کمی و چند دیگر وجوہات کے باعث پہلے ہی بلوچستان کے سیاست و دیگر پہلو وں کو قومی میڈیا میں کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے یہی وجہ ہے ملک کی 99فیصد آبادی کو بلوچستان کے اضلاع یا شہروں کے نام تک یاد نہیں ہیں ۔


بہر کیف حالیہ سینٹ انتخابات کے دوران بلوچستان حکمران اتحاد میں پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات اپنے پورے عروج پر پہنچ چکے ہیں ،نئے گورنر کی تعیناتی کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی پارلیمانی پارٹی سے نام تجویز کرنے کیلئے کہا جس پر پارلیمانی پارٹی نے تین نام تجویز کئے اور یہ بھی طے کیا گیا کہ ناموں کے تجویز کرنے کے بعد پارلیمانی پارٹی کی اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات ہوگی جس میں گورنر کی تعیناتی سمیت بلوچستان کی سیاست و آئندہ کی حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے مشاورت کی جائے گی لیکن سب سے پہلے عمران خان نے وعدے کے برخلاف پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی بلوچستان کو ملاقات کیلئے وقت ہی نہیں جبکہ اس ضمن میں واقفان حال کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ایسا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے کہنے پر کیا کیونکہ قاسم سوری بلوچستان میں من پسند گورنر کو لانا چاہتے تھے تاکہ بلوچستان کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں اور اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ٹربیونل بلوچستان کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے قاسم سوری کے حلقہ کے انتخابی نتایج کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کیا حکم دیا تو عین ممکن ہے کہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہوسکیں اگر ایسا ہوتا ہے تو قاسم سوری کی سیاست کا مرکز گورنر بلوچستان کا آفس و گھر ہو سکتا ہے اور موجودہ گورنر کو ہٹا کر خود قاسم سوری کے گورنر بننے کا آپشن بھی موجود رہے گا ۔

(جاری ہے)


پی ٹی آئی بلوچستان کی رائے کو نظر انداز کر کے گورنر بلوچستان کی تعیناتی کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے سات میں سے چھے اراکین صوبائی اسمبلی مرکزی قیادت سے سخت نالاں ہیں ، پارلیمانی ذرائع کے مطابق اب یہ اراکین آئندہ عام انتخابات سے قبل اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کیلئے اڑان بھر کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ان اراکین کا نجی محفلوں میں کہنا ہے کہ عمران خان نے گزشتہ تین برسوں میں اپنے قوم و فعل سے ہٹا کر اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے بہت مایوس کیا ہے او ر اب پی ٹی آئی کا بلوچستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے ۔

بلوچستان کے ممتا ز سینئرسیاستدان سردار یار محمد رند بھی اسی صورتحال کی وجہ سے پارٹی قیادت اور وزیر اعلی بلوچستان جام کمال سے سخت نالاں ہیں ،انہوں نے بجٹ سیشن کے دوران ہی صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بطور صوبائی وزیر مستعفی ہونے کا اعلان کر تے ہوئے استعفا گورنر بلوچستان کو بھجوادیا تھا ، اْنہوں نے بطور وزیر اعظم کے معاون خصوصی بھی مستعفی ہونے کا عندیہ دے دیا تھا جس پر عملدرآمد کیلئے وہ نہ صرف اپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت سلام آباد بھی پہنچ گئے تھے بلکہ پریس کانفرنس کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئیں تھی لیکن چونکہ اْنکے استعفے سے بلوچستان کی سیاست میں ایسا بھونچال آیا کہ اس کے آفٹر شارکس پنجاب اور وفاق میں بھی آنے کے شدید خطرات پیدا ہوگئے تھے لہذا سیاست کے پس پردہ کھیلاڑیوں کو بھی پریشانی لاحق ہو ئی ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پس پردہ کھیلاڑیوں نے پہلے تو وزیر اعلی بلوچستان سے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور پھر سرداریار محمد رند کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے مزید استعفا نہ دینے کی اپیل کی اور دوسری جانب اْنکابطور وزیر دیا گیا استعفا منظور نہ کرنے کیلئے کہا گیا ، یہی وجہ ہے کہ کئی روز بیت جانے کے باوجود گورنر بلوچستان نے انکا مذکورہ استعفا منظور نہیں کیا۔

واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ یار محمد رند کو منانے کیلئے مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں لیکن تاحال سردار یار محمد رند نالاں ہیں ، آخری ملاقات میں یہ طے پایا کہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خود چل کر سردار یار محمد رند کے گھر آکر اپنی سابقہ غلطیوں پر معذرت کرینگے بلکہ آئندہ ساتھ لیکر چلنے کی بھی مکمل یقین دہانی کرائیں گے، اس پر عملدرآمد کرانے کیلئے سردار رند سے ملاقات کیلئے متعدد مرتبہ وقت مانگا گیا لیکن مصرفیات کا کہہ کر سردار رند نے تاحال وقت نہیں دیا، آخری اطلاعات کے مطابق یہ کاوشیں جاری ہیں ۔


اسی دوران سردار یار محمد رند کی کراچی میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات بھی ہوئی جبکہ اس سے قبل اسلام آباد میں آصف علی زرداری خود سردار رند سے ملنے ااْنکی رہائشگاہ آئے تھے ۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں بھی آصف علی زرداری نے سردار رند کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی جس پر فوری کوئی جواب دینے کے بجائے سردار رند نے اپنی ساتھیوں سے مشاورت کیلئے وقت مانگا تھا۔

چونکہ وزیر اعظم عمران خان کے فیصلوں و طرز سیاست سے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے اکثر عہدیدار بھی متفق و مطمین نہیں ہیں اس لئے اگر ایسے میں سردار رند پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے بلوچستان میں فاروڈ بلاک بنا لتے ہیں توسب سے پہلے صوبائی تنظیم کے بیشتر عہدیداران و کارکنان پی ٹی آئی سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے جبکہ بلوچستان کے حکمران جماعت پہلے ہی شدید سیاسی اختلافات کا شکار ہے تو ایسے میں بلوچستان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو نہ صرف حکومت بلوچستان بلکہ پنجاب پھر وفاقی حکومتیں بھی گر سکتیں ہیں کیونکہ جب اقتدار پر گرافت معمولی سے بھی کمزور ہوتی ہے تو اراکین اسی طرح ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جیسے بند مٹھی سے ریت نکل جاتی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :