کیا عمران خان واقعی ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں ؟

پیر 12 جولائی 2021

Bilal Dar

بلال ڈار

وزیر اعظم عمرا ن خان کہ اس بیان کہ میں ناراض بلوچوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں کے بعد بلوچستان سمیت ملک کے طول عرض میں اس حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اور اس بحث میں اْس وقت کئی گنااضافہ ہوا جب وزیراعظم نے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی شازین بگٹی کو یہ کام سونپتے ہوئے معاون خصوصی مقرر کیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستاان پر کام کرنے کی وجہ سے سوچا کہ پالیسی سازوں کو اس ضمن میں چند تجاویز پیش کر دوں جوکہ درذیل ہیں۔


وطن عزیر جس طرح اندورنی و بیرونی خطرات و مسائل میں گھیرا ہوا ہے ایسے میں نہایت ضروری ہے کہ ہمیں اپنا ہاوس ان آرڈر کرنا چاہے یہی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی پالیسی ہے جس کا متعدد مرتبہ برملاں اظہار بھی کیا جا چکا ہے ، بلوچستان میںآ ئے روز ہونے والے دہشتگردی کے واقعات اور پھر شرپسندوں سے نمٹنے کیلئے ایک طرف کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث وہاں سرمایہ کاری کرانے کیلئے سی پیک کے علاوہ کوئی خاطر خواہ نتایج بھی برآمد نہیں ہو سکے۔

(جاری ہے)

ایسے میں دانشمندی کا تقاضا ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ساتھ حل کرنے کی پالیسی اپنائی جائے ۔
اب تک اس ضمن میں ہونے والی بحث میں وزیر اعظم کے مذکورہ اعلان کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ناکامیوں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری امریکہ کو ہوائی اڈے دینے جیسے مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کیلئے اس ایشو کو سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت قلیل مدت کیلئے زندہ کر رہی ہے ، کیونکہ وزیر اعظم کے اس بیان سے قبل یا بعد میں تاحال عسکری قیادت کی جانب سے کوئی پالیسی یا بیان سامنے نہیں آیا، چنانچہ اگر حقیقت میں حکومت ایسا کچھ کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے سیاسی و عسکری قیادت کو مشترکہ طور پر لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہے۔


دنیا کئی ممالک جہاں علیحدگی یا آزادی کی مسلحہ تحریکیں چل رہی تھیں یا چل رہی ہیں وہاں کی حکومتوں نے فریڈم فائٹرز کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف اْنہیں میڈیا کے ذریعہ بات چیت کی دعوت دی بلکہ حکومت نے جن افراد کو مذاکرات کا فریضہ سونپااْنکے علاوہ ملک کی سول سوسائٹی کو بھی آن بورڈ لیتے ہوئے اس سے بھی فریڈم فائٹرز کو ہتھیار ڈال کر بات چیت کرنے کی اپیلیں کرائیں جیسا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 1980کی شدید عسکری تحریک آزاد ی کے ہیروز سے انڈین سول سوسائٹی کے ذریعہ اپیلیں کرائیں کہ ہتھیار پھینک کر بات چیت کریں ہم مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعہ حل کرانے کی ضمانت دیتے ہیں جس کا معروف حریت رہنما یاسین ملک اپنے کئی انٹرویوز میں حوالہ دے چکے ہیں چکے ہیں، گو کہ ہتھیار پھینک کر بات چیت شروع کرانے کے بعد ہمیشہ کی طرح بھارت اپنے وعدوں سے منحرف ہو گیا لیکن اس پالیسی سے وہ فریڈم فائٹرز کو بات چیت کیلئے آمادہ کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔


ماضی میں بھی متعدد مرتبہ حکومتوں نے ناراض بلوچوں کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کیا لیکن زیادہ تر حکومتوں نے اس عمل کو سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا یا ناراض بلوچوں کی جانب سے سیاسی حکومتوں پر اعتبار کرنے سے انکار کرتے ہوئے عسکری قیادت سے براہ راست بات چیت کرنے کی شرط رکھی جس کے بعد یہ عمل وہی ختم ہو گیاچنانچہ سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مل بیٹھ کر اس حوالے سے پالیسی مرتب کرے اس عمل میں اپوزیشن کو بھی شامل کیا جائے چونکہ بلوچستان کے عوا م سب زیادہ متاثر ہوئے اس لئے بلوچستان اسمبلی و سول سوسائٹی کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے تاکہ سب ملکر اس مسئلہ کے پرامن حل کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں۔


چونکہ علیحدگی پسند تنظیمیں متحد نہیں ہیں اور نہ ہی کسی اتحاد کے تحت کام کرتیں ہیں انکے اپنے اپنے کمانڈر ز، اہدف اور علاقے ہیں اس لئے ان سے ایک ساتھ بات چیت بھی نہیں ہو سکتی ہے ، ایسے میں یہ بھی ممکن نہیں کہ ان سے بات چیت کا عمل کوئی ایک شخص ہی کرے کیونکہ باہر بیٹھی ہوئی ناراض قیادت میں مری ، بگٹی ، مینگل و دیگر قبائل کی اہم شخصیات شامل ہیں ،یہ تو ممکن ہے کہ شازین بگٹی اپنے کزن براعمداغ بگٹی سے رابطہ کر کے بات چیت کا عمل شروع کر لیں لیکن دیگر قبائل کے نارض بلوچ اْنکی بات سننے کو آمادہ نہیں ہونگے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بات چیت کا فریضہ کسی ایک کے بجائے بلوچستان کے مذکورہ قبائل کی مختلف معتبر سیاسی سماجی شخصیات کو سونپا جائے، لیکن یہ کام اس وقت تک ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک عسکری قیادت کی کھل کر اور مکمل تائید وحمایت حاصل نہیں ہو گی بلکہ اس عمل میں رٹیائرڈ اعلی فوجی افسروں کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو برق رفتاری سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

اس عمل میں وہ قبائلی و سیاسی شخصیات جو آْئین پاکستان کو قبول کرتے ہوئے پاکستان میں سیاست کر رہی ہیں اور ناراض رہنماوں کے نہایت قریبی رشتہ دار ہیں جن میں سردار اختر مینگل ، جام کمال خان وغیرہ سے بھی کام لینا چاہے، اسکے علاوہ بیرون ممالک میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایسی کئی شخصیات ہیں جن میں سابق مشیر وزیر اعلی بلوچستان حلیم ترین وغیرہ شامل ہیں سے بھی بہت حد تک مدد لی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :