ہندوستان کی جانب سے مقبوضہ وادی سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی،فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ 1947میں تقسیم برصغیر کے وقت قائداعظم کے دو قومی نظریے سے منکر ہو کر ہندو قیادت کا ساتھ دینے کا فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی اپنے پیروکاروں سے بہت بڑا دھوکا تھا جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں اگر اس وقت ہم قائد اعظم کی بات تسلیم کرکے ہندوستان سے آزادی کا اعلان کر دیتے تو نہ وادی کشمیر ظلمت شب کے تاریک سائیوں میں ڈوبتی نہ کشمیری نوجوان ظلم و جبر کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے نہ کشمیری عورتوں کی عصمت دری ہوتی اور نہ ہی آزادی کی خاطر اس قدر مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہندوستانی قیادت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ہم سے دھوکا کیا ہے ہم سے مکاری اور منافقت کی ہے ،مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
(جاری ہے)
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ کے اس بیان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ قائداعظم کی جانب سے دو قومی نظریے کا احیاء صداقت اور سچائی کے اصولوں پر مبنی تھا بلکہ ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ ہندوؤں کی غلامی اور محکومی سے نجات بھی تھا آج وقت ،حالات اور انتہاء پسند ہندو ذہنیّت نے دو قومی نظریہ کی سچائی اور حقانیّت کو ثابت کر دیا۔
مقبوضہ وادی کے بارے میں انتہاء پسنداور مسلم دشمن ہندوؤں کا فیصلہ روشن خیال دانشوروں،مودی کی محبت میں گرفتار کچھ پاکستانی راہنماؤں اور عسکری قیادت کے خلاف اناب شناب بکنے والے کچھ کم ظرف صحافیوں،این جی اوز کی ضمیر فروش کارکنوں اور کم عقل سیاسی ورکروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جو اپنے افکار و کردار سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا رہن سہن ایک جیسا ہے ،ان کی تہذیب ایک ہے ہماری ثقافت ایک ہے ہماری سوچ ایک ہے تقسیم برصغیر کے موقع پر پاکستان اور ہندوستان کے بیچ بننے والا بارڈر،،،ایک لکیر،،، کے سوا کچھ نہیں۔ چند ٹکوں کے عوض ملک کی اسلامی اور نظریاتی اساس کے خلاف بھاشن دینے والو۔۔
تم اپنے نظریے پاس رکھو ہم اپنا نظریہ رکھتے ہیں
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بارڈر کو ،،ایک لکیر ،،کہنے والے نام نہاد دانشورو،این جی اوز کے ضمیر فرو ش ورکرو۔۔ یہ ایک لکیر نہیں۔ بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان حد فاصل ہے جس کے لئے ماؤں نے اپنے معصوم بچے قربان کئے ہیں ،بہنوں نے اپنے ویر اس لکیر کی خاطر وارے ہیں،بیٹیوں نے اپنے سہاگ لٹائے ہیں بزرگوں نے اپنامال و متاع اس کے لئے گنوایا ہے ،لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں آگ اور خون کا اک دریا تھا جس کو ہمارے اسلاف نے اس لکیر کی خاطر عبور کیاتھا ۔اور تم کہتے ہو کہ دو بھائیوں کے درمیان ایک لکیر ہے ۔۔ نہیں ،نہیں یہ لکیر نہیں ۔۔یہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں ،شہادتوں اورولولوں عظیم داستاں کا استعارہ ہے۔۔
ارض پاک تحفے میں نہیں ملی ہم کو ۔۔۔
ہزاروں دیپ بجھے ہیں تو ایک چراغ جلا ہے ۔۔
میرے عظیم قائد ،،،قائد اعظم نے 75برس قبل کہا تھا ،،، کہ جو لوگ آج دو قومی نظریے کی صداقت سے انکار کرکے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں ان کی نسلیں ہندو ؤں کے سامنے ہندوستان سے وفاداری کی قسمیں کھاتے کھاتے مر جائیں گی تب بھی ان کی ہندوستان سے وفاداری مشکوک ہی ٹھہرے گی اور آج کشمیر تو کجا ہندوستان میں بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا غلامی اور محکومی کا طوق ہندوؤں نے اقلیّت کے گلے میں ڈال دیا ہے ۔۔
میرے قائد نے ہندو کے بارے میں جو کہا تھا سچ کہا تھا ،،
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔