برصغیر کا ہٹلر، کشمیر اور سوہنی دھرتی

پیر 19 اگست 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایک چائے والا بھارت کا وزیر اعظم کیسے بن گیا؟ وہ ملک کے جہاں ذات پات،برادری،مذہبی منافرت کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں وہاں کا وزیر اعظم ایک چائے والا ؟ اسی سوال کی کھوج میں والٹر اینڈرسن کی کتاب دی آر ایس ایس اٹھائی اور پھر نا ختم ہونے والے سلسلے چل نکلے۔ رشتریا سوام سیوک سنگ RSS 27 ستمبر 1925ء کو ڈاکٹر جی کے نام سے مشہورکیشیو بلی رام ہیدگیوار نے بنائی۔

یہ انگریزوں کے خلاف خاص ہند وتا یا ہندومت پر بنی ایک مذہبی و سیاسی تنظیم تھی، جو ہندوؤں کے اکھنڈ بھارت کی آئیڈیالوجی لے کر آئی تھی۔ ڈاکٹرجی نے پوری آزادی کی تحریک میں اسے گوروں کے حق میں رکھا۔ ان کا بھارت کی آزادی میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی حصہ نہ تھا، یہاں تک کہ یہ آزادی کے لیے ہر اقدام کی مخالفت کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر جی مر گئے،آر ایس ایس زندہ رہی۔ 30 جنوری 1948ء نتھو رام گودسے نامی شخص نے پوائنٹ بلینک فاصلے سے مہاتما گاندھی کے سینے میں تین گولیاں اتاریں، نتھورام کا تعلق آر ایس ایس سے تھا اور اس نے مسلمانوں کو آزادی میں مدد پر گاندھی کو قتل کردیا۔ اس کے بعد آر ایس ایس سیاسی منظر نامے سے کسی طور ہٹ گئی، مگر جو وہ کام کرتی رہی وہ برصغیر میں ہٹلر کا جنم تھا۔

والٹر کی کتاب میں تیس سال پہلے آر ایس ایس کے بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا میں دو ممبر کا ذکر ملتا ہے جو یہ کتاب لکھنے کا موجب بنے۔والٹر جانتا تھاآر ایس ایس ہندو تا پر کام کررہی ہے، ہر گلی کوچے میں کررہی ہے اور بھارت میں کچھ بڑا ہونے جارہا ہے۔ گاندھی کی کانگریس ہارنے لگی، بھارت کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا اور بی جے پی بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ۔

یہ بی جے پی کس کی پیداوار تھی؟ آر ایس ایس کی یعنی ہندوتا کو بھارت میں حکمرانی مل گئی۔ اٹل بہاری واجپائی کے بعد ہندو مسلم گجرات فسادات کا موجد نریندر مودی ایک بار نہیں دو بار دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم بن گیا اور یہ وہی لڑکا تھا،جو آر ایس ایس کے کیمپس میں پروان چڑھا تھا۔ وہ کیمپ جو آج بھارت کی گلی گلی میں پھیل چکے ہیں،وہ جن کے جھنڈے میں سوائے مالٹے کے ہندوتا رنگ کے علاوہ کوئی اور رنگ نہیں ہے ،جو اپنے بچوں کو شادی اور گھر بسانے سے روکتے ہیں۔

ان کو گھروں میں کچن تک کی آزادی نہیں تاکہ یہ دوسرے ہندوؤں کے گھروں میں جا کر کھانا کھائیں اور ان کو بھی ہندوتا پر قائل کریں۔30 جنوری 2015ء کو مہاتما گاندھی کی برسی پر نتھورام گودسے پر بنی ایک ڈاکو منٹری ریلیز کی جاتی ہے، دیش بھگت نتھو رام اور اس تقریب میں خود نریندر مودی شریک ہوتا ہے۔ مطلب بھارت کے بانی، باپو کو قتل کرنے والے کو محب الوطن کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور یوں بھارت کی پوری آئیڈیالوجی سب پر واضح کر دی جاتی ہے۔

گزشتہ گونج کا کالم کشمیر کے موضوع پر تھا، میں کئی بار کشمیر کو فلسطین سے ملانے کی کوشش کرتا رہا، مگر والٹر کی کتاب،آر ایس ایس کی تاریخ اور دیش بھگت نتھورام مجھے خون کے دریا میں ایک اور طرف لے گئی۔ بھارتی صدر رام ناتھ گوند ، نائب صدر وینکیاہ نیدو اور بھارت کی موجودہ کئی ریاستوں کے سی ایم آر ایس ایس کے کیمپوں کی پیداوار ہیں۔ تیس سالوں میں دو سے شروع ہونے والی کہانی پوری لوک سبھا بھر چکی تھی اور انہی نے کشمیر پر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ہٹا دیا، کشمیر کا اپنا پرچم ختم ، زمین پر سے حق ختم ۔

ہریانہ کے چیف منسٹر نے آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد تقریر میں کہا کہ اب میری ریاست کے ہندو،کشمیر کی گوری لڑکیوں کو یہاں لا سکیں گے۔ مطلب ہندوتا کشمیر میں پھیلے گی۔ والٹر کی کتاب ختم کرنے کے بعد صبح کے چار بجے میں گھر کی چھت پر گیا، کافی دیر جناح کی ویژن اور موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سوچتا رہا۔ آر ایس ایس کے بعد مودی کے گجرات جیسا جونا گڑھ، حیدرآباد اور اب کشمیر کہ جہاں مسلمان دوقومی نظریے کی اصل حقیقت دیکھ رہے ہیں۔

ہندو اکثریتی علاقوں میں آر ایس ایس کا ملٹری ونگ بجرنگ دل بلوائیوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹتا ہے،ان کوقربانی کی اجازت نہیں، جینے کی آزادی نہیں،سانس لینے کی آزادی نہیں، ریپ،قتل،آگ ،حتی کہ بڑی بڑی فیکٹریاں تک جلا دی جاتی ہیں۔ اسی فیصد مسلم آبادی پر مشتمل پاکستان کی شاہ رگ کشمیر بھارتی فوج نہیں اب آر ایس ایس یعنی ہندوتا کے تسلط میں ہے،حالات وہ نہیں جو تیس سال پہلے تھے۔

نریندر مودی ہندؤں کے اکھنڈ بھارت کی طرف چل پڑا ہے، بالکل ویسے جیسے اڈولف ہٹلر نے جرمن لوگوں کے گریٹر جرمنی کا خواب دیکھا تھا۔1939ء میں شروع ہونے والی گریٹر جرمنی کی کہانی 1945ء میں پوری دنیا میں آگ لگا کر ختم ہوگئی اور دنیا کو ایٹم بم دے گئی۔آج کے بر صغیر کے آر ایس ایس زدہ اڈولف ہٹلر مودی کے پاس پہلے سے ایٹم بم موجود ہے۔ کشمیر کی حسین وادی، دو قومی نظریے کا ہی تسلسل ہے، نہرو چاہتا تھا،کشمیر بھارت کا حصہ بنے اور ہم کشمیر کے مسلمانوں کو خوش رکھ کے جناح کی تقسیم کو غلط قرار دے سکیں، مگر وہ غلط تھا۔

آج ہندوتا یعنی آر ایس ایس کو را ،موساد،بھارتی ایجنسیاں سپورٹ کررہی ہیں۔ چائے والا برصغیر کا ہٹلر بن چکا اور تیسری جنگ عظیم یعنی غزوہ ہند کا طبل بجنے کو ہے۔ اگریہ جنگ ہوگئی تو دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان دنیا کی بدترین جنگ ہوگی۔اس سے پوری دنیا سے ہندوتا اور ہنومت کا آر ایس ایس سمیت وجود مٹ جائے گا، مگر مسلمان زندہ رہیں گے۔وہ کس حال میں زندہ رہیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا مگر افسوس کے ساتھ فلسطین کی طرح ،کشمیر کے معاملے پر بھی سعودی عرب کا کردار شدید شرمناک ہے۔

سعودی تیل کی سب سے بڑی کمپنی Aramco مکیش امبانی کی ریلائینس تیل کی کمپنی کے ساتھ دنیا کی تاریخ کا تیل کا سب سے بڑا معاہدہ کررہی ہے اور یہ سب تب ہورہا ہے کہ جب بھارتی ہٹلر آر ایس ایس کے ہندوستان کو کشمیر پر مسلط کرکے پاکستان کے ختم کرنے کے درپے ہے اور دنیا ایٹمی جنگ کی طرف جارہی ہے۔ سورج طلوع کے ساتھ اسلام آباد کے پہاڑوں پر ہر گھر پر مجھے ہرا جھنڈا نظر آنے لگا۔

جناح کے ویژن پر میری آنکھوں میں آنسو تھے۔یہ یہاں آزادی کی روح پرور صبح تھی اور میرے پڑوس میں آر ایس ایس کا ہٹلر ،میرے کشمیر کو جلا رہا تھا۔ ایک گونج یہ کہتی ہے کہ جلداس ہٹلر کا خاتمہ بھی 1945ء کی طرح ہوگا،آر ایس ایس اپنی انتہا پسندی کی آگ میں جل جائے گی۔ ناگالینڈ، خالستان الگ ریاستیں بن جائیں گے، کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا۔ ایسے ہی کسی پہاڑ پر میرا گھر ہوگا، وہ گھر کشمیر میں ہوگا اور انہی آنکھوں سے میں دور دور تک صبح کی تازہ ہوا میں ہرا آزاد چاند ستارے والا پرچم ہر گھر کی چھت پر دیکھوں گا۔

میری تین سال کی بیٹی اپنی ماں کے ساتھ صبح صبح مجھے ڈھونڈتی چھت پر آنکلی، ہاتھ میں ہرا جھنڈا تھا ،وہ م مجھے فون پر کچھ سنانا چاہتی تھی،سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد ،قدم قدم آباد تجھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :