ہم کس گلی جارہے ہیں؟

اتوار 22 ستمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

آج سے چند سال پہلے جب میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا،تو ہاسٹل جانا پڑا اور یہاں سے ایک ایسی زندگی کا آغاز شروع ہوا جو سوائے جہد کے کچھ نہیں تھی۔ یہ سرکاری میڈیکل کالج تھا اور یہاں تعلیمی جنونی آئے تھے، اکثریت کا تعلق کسی گاؤں یا نواحی علاقے سے تھا اور ان کے لیے یہ ہاسٹل جنت تھا۔ مفت بجلی، بہتر کھانا ،مستحکم مستقبل، شہری ماحول اور سب سے بڑھ کر ٹین ایج میں خواتین کے ساتھ پڑھنے کا موقع۔

زندگی آگے بڑھی ،میں نے ان جنونی لوگوں میں کئی بگڑتے دیکھے،کچھ نشے کی لت میں پڑ گئے ،کچھ کو لیڈری کا شوق چڑھ گیا اور کچھ عشق میں مبتلا ہوگئے۔ مگر تعلیم کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ اکثریت اس سب کے باوجود پڑھتی رہی ۔ یہ وہ دور تھا،جب سمارٹ فون نہیں تھا، یہ پرانے بھاری،بڑے فونز کا دور تھا،جن پر میسج،کال سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا اور اس پر جن کو زیادہ انگوٹھے چلانے کا شوق تھا یا وہ لڑکیوں کے نمبروں کے پیچھے رہتے تھے یا پھر سانپ والی مشہور گیم کھیلتے رہتے تھے۔

(جاری ہے)

اس وقت ہاسٹل میں اونچی آواز میں عاطف اسلم کے گانے چلا کرتے تھے اور میں نے بھی پہلی بار اس سنگر کو تب سننا شروع کیا جب مجھے گانا ’ ہم کس گلی جارہے ہیں؟‘ اچھا لگا۔ ہم میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں تھے،تو چند رئیس زادوں کے پاس نئے نئے سمارٹ فون آنے لگے۔ فیس بک کا نام پہلی بار 2009 ء میں سنا اور دو ہی سالوں میں جیسے دنیا ہی بدل گئی۔ ہم سب ڈاکٹر بن گئے،جن کے عشق پکے تھے،ان کی انہی سے شادیاں ہوگئیں،جن کے کچے تھے ،ان میں چند آج بھی کنوارے ہیں، مگر ان میں تقریبا سب ہی کیرئیر میں سیٹ ہوگئے۔

آج 2019ء ہے ، ہم نے جس گلی سے سفر شروع کیا تھا،اس میں Diversions بہت تھیں، کسی بھی موڑ پر زندگی کوئی بھی رخ لے سکتی تھی، مگر ان میں کوئی بھی ایسی نہیں تھی،جیسی آج 2019ء میں ہیں۔ میں آج بھی سوچتا ہوں اور پورے یقین سے یہ بات دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میرے میڈیکل کالج کا تیسرا سال آج 2019ء کا سال ہوتا تو وہ اکثریت جو کچھ نہ کچھ بن گئی، اس کاغذی ایپس کے سیلیبریٹی زدہ کلچر میں تباہ ہوجاتی۔

ہم میں اکثریت کے عشق Live steaming ایپس پر چل رہے ہوتے، کچھ کو مشہور ہونے کا شوق ہوتا ،وہ ٹک ٹاک پر وڈیوز بنا رہے ہوتے، لڑکیاں انسٹاگرام پر چاکلیٹ ہیروز کو روزانہ گھنٹوں دیکھتی رہتیں اور ان کے سانس لینے سے ،چائے کے کپ تک ان کو فالو کررہی ہوتیں اور کچھ یوٹیوبرز بن کر سڑکوں پر پرینک کررہے ہوتے۔ سمارٹ فون کلچر نے جہاں سہولتیں پیدا کی ہیں،وہیں اس نے ایک ایسے معاشرے کو جڑ سے ہلا کر رکھ دیا ہے ،جس کے ہاتھ میں یہ سب آنا ایسے ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں ماچس۔

خاص کر ستمبر 2016ء میں چائینا کی ایک مشہور سمارٹ ایپ Douyin کے آنے کے بعد، پاکستان،بھارت اور نیپال میں جو کچھ ہوا،اور جو ہونے جارہا ہے ،وہ تباہ کن ہے۔ Douyin کو ٹک ٹاک کے نام سے 2017 ء میں چائینا سے باہر مارکیٹ کیا گیا۔ یہ دوسری سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائیٹس فیس بک، ٹوئیٹر،انسٹا گرام سے متاثر تھی، مگر اس کی خاصیت یہ تھی کہ اسے استعمال کرنا بہت آسان تھا، اس میں آپ کسی ڈائیلاگ،گانے پروڈیو یا تصویر بناتے اور بس وہ وائرل۔

صرف دو سالوں میں اس پر پوری دنیا میں پانچ ارب اکاؤنٹ بنائے گئے ،جن میں سے ڈیڑھ ارب صرف ایشیاء کے لوگوں نے بنائے،وجہ یہ تھی کہ یہ دیہات میں ایک عام سادہ لوح غیر تعلیم یافتہ شخص بھی استعمال کر سکتا تھا اور یوں ٹک ٹاک عام ہوگیا۔ اس کے بعد مختلف Dating سافٹ وئیر آگئے،یعنی آپ پوری دنیا میں کسی بھی لڑکے لڑکی سے بات کریں،یہ سب آپ سے کریڈٹ کارڈ میں پیسے لیتے اور وہ پیسے لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ شئیر دے کر ادا کیے جاتے،یوں جو لڑکیاں کالج یونیورسٹیوں میں پڑھتی تھیں اور انہیں آج کے سمارٹ کلچر میں اچھا لائف سٹائل جینا تھا،وہ ان سے فائدہ اٹھانے لگیں۔

کرنا ہی کیا ہوتا تھا؟ بس کچھ دیر اجنبی لوگوں سے باتیں۔ یہ کام اس قدر پھیلا کہ فیس بک جیسی ایپ پر لائیو فیچر آنے کے بعد اکثر خواتین نظر آنے لگیں کہ اس وڈیو کو اتنے گروپس میں شیئر کریں تو فون یا کال پر بات کروں گی، رہی سہی کثر یوٹیوب کے بے پناہ پیسوں سے نکال دی۔ پاکستان میں پرینک یعنی لوگوں سے اوٹ پٹانگ مزاق کرنے والے چند لوگ بے پناہ مشہور ہوئے اور ان کو یوٹیوب نے وڈیوز کے حساب سے بے پناہ پیسا بھی دینا شروع کیا تو اکثریت پرینک سٹار بننے چل نکلی۔

اب یہ نام کو تو سب سوشل میڈیا کی دیگ تھی، اور کسی طور پڑھے لکھے لوگ ٹویٹر یا انسٹا گرام تک اس کو Media in Hand تک رکھ کر سپورٹ کررہے تھے اور آج بھی کررہے ہیں، مگر اس کے اندر اور جو کچھ ہوا اس نے آنے والے زمانے میں نسلوں کی بربادی کی نوید دے دی ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ شہرت یا پیسے کی آڑ میں ٹک ٹاک لڑکیاں، فین بناتی ہیں،بے پناہ مشہور ہوتی ہیں اور پھر انہیں سیلیبریٹی بنا دیا جاتا ہے۔

حیران کن طور پر ایسے لوگوں کو مین سٹریم میڈیا بھی اٹھا دیتا ہے،ان کی وڈیوز ،ان کے سکینڈلز کو بالی یا ہالی وڈ سٹارز جیسی ہوا دی جاتی ہے اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ،ایسا ہی یوٹیوب کے پرینک سٹارز کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ اب وہ بچہ جو ٹین ایج میں گھر سے پڑھنے نکلتا ہے،وہ ان ایپس کی کاغذی شہرت میں یا تو یوٹیوبر بننے کی جہد کرنے لگتا یا پھر ٹک ٹاک کی زیادہ سے زیادہ فینز رکھنے والی حسین سیلیبریٹی۔

اس میں تعلیم کہاں جاتی ہے؟ انسانی رشتے اور حیا کہاں جاتی ہے؟ معاشرتی اقدار کہاں جاتی ہیں؟ ان سب پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ کتنے گھر ایسے ہیں ،جنہیں میں نے ذاتی طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ کہیں لڑکے پرینک وڈیو بناتے کسی کی گولی کا شکار ہوئے، کہیں ٹک ٹاک پر تیز ترین گاڑی چلاتے کی وڈیو کے چکر میں گاڑی درخت میں مارتے دکھائی دیے، کتنی لڑکیاں ایسی راہوں کا شکار ہوگئیں،جہاں تاریکی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

آج 2019ء میں ، میں اپنے آپ کو جس گلی میں دیکھ رہا ہوں،وہاں نوجوان نسل کے لیے ہر طرف شہرت ،پیسے ،عوامی رابطے کے دروازے کھلے ہیں، سوائے اچھے مستقبل اور ذہنی سکون کے۔ ہاسٹل کا وہ پرسکون کمرہ جنت کا گوشہ تھا کہ جہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا،جہاں مجھے کسی کے اچھے ہوٹل میں کھانا کھانے،کسی کی خوبصورت دوست ہونے،کسی کے کامیاب ہونے یا اداس ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، جہاں مجھے پوری رات خواتین کو ان ایپس پر دیکھتے نہیں گزارنی پڑتی تھی اور جہاں مجھے پرینک کرکے کاغذی شاہ رخ خان بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔

میں سوشل میڈیا کہ کسی نشے کا شکار بھی نہیں تھا کہ ادھر فون رکھا ،ادھر انگوٹھے میں خارش شروع ہوگئی۔ نہ حسد ہوتا تھا، نہ ہی ڈیپریشن اور نہ ہی کسی کی پرواہ۔ کتابیں تھیں، پڑھائی تھی ،چھوٹا سا کمرہ تھا، سوچیں تھیں اور کبھی کبھی باہر سے آنے والے عاطف اسلم کے گانے کی آواز ۔ مجھے آج کی اس وحشت زدہ گلوبل ویلج سوشل زندگی سے وہ رنگون کے ہاسٹل کی بہادر شاہ ظفر والی جلا وطنی زیادہ عزیز ہے، جہاں میں تھا،تنہائی تھی اور سکون تھا۔

آج کے دور میں ایسا ناممکن ہے ۔ آپ جلا وطن ہونا بھی چاہیں گے تو بھی وٹس ایپ باقی رہے گا جہاں لوگ آپ کو زبردستی ڈال کر،رنگون سے واپس انہیں گلیوں میں لے آئیں گے۔ جن گلیوں میں سوائے وحشت کے کچھ ہیں۔ اسلام آباد کی بارشوں میں کبھی کبھار میں سمارٹ فون رکھ کر اس وقت کو یاد کرتا ہوں، ان بارشوں کا رومانس آج بھی ،کالج کے ہاسٹل کی بارشوں جیسا ہی ہے، مگر یہ اب بے پردہ ہوچکی ہیں۔ان کی تصویریں چند منٹوں میں پوری دنیا میں وائرل ہوجاتی ہیں۔ یہ سمارٹ فون کی ایپس کی دنیا ہے، میری بارشیں بھی میری نہیں رہیں۔ آخر میں ایسی ہی ایک بارش ،انہی دنوں اور اسی گانے کی یاد، ہم کس گلی جارہے ہیں؟اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :