ڈاکٹر ڈوگر ماڈل اور نظام ِ صحت

پیر 11 نومبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 سسکی سے ہچکی تک کے سفر کا نام زندگی ہے۔یہ سفر عمل کے بغیر بے کار ہے اور عمل کے لیے جہد اور صراطِ مستقیم کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ میں نے بہاولپور شہر کے سرکاری میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔اس میڈیکل کالج کی خاصیت یہ تھی کہ یہاں جنوبی پنجاب کے انتہائی محنتی بچوں کو میرٹ پر داخلہ ملتا تھا ۔ان میں اکثریت کا تعلق وسیب کے گردونواح کے پسماندہ علاقوں سے ہوتا تھا اور یہ انتہائی ذرخیر بچے ہوتے تھے۔

 
میں ان کے ساتھ پانچ چھ سال ہاسٹل میں رہا اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔اس میڈیکل کالج نے بہت سے بڑے نام پیدا کیے ،ان میں ایک بڑا نام میرے سے چند سال سینئیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کا ہے۔ہم نے جراحی کے مضمون میں اسی شخص کی لکھی کتابوں کو پڑھا اور امتیازی نمبروں میں پاس ہوئے،مجھے بھی میڈیکل کی کتابیں لکھنے کا شوق تھا سو میری ان سے کئی سالوں سے اچھی دوستی تھی۔

(جاری ہے)

اس شخص کی زندگی میں نے آنکھوں کے سامنے دیکھی او ر جو میں نے دیکھا وہ سب آنے والی کئی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ بظاہر کامیاب یہ شخص کئی مشکلات کا شکار رہا۔
 ملتان کے ایک نواحی پسماندہ علاقے سے تعلق تھا ،غربت تھی،اور یہ شخص ایک ایسے ملک میں جگر کی پیوندکاری یعنی لیور ٹرانسپلانٹ کا سرجن بننا چاہتا تھا،جہاں ہسپتالوں میں بعض اوقات سرنج بھی ملنا مشکل ہوجاتی ہے۔

پیسہ تھا نہیں ،باہر جانا ناممکن تھا۔اس شخص نے بہاولپور کے موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کے وارڈ میں چار سال جراحی کی ٹریننگ کی۔پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس شخص کے پاس تین راستے تھے۔ یہ شخص یہیں ٹرین کی بتی کے پیچھے والی سرکاری پالیسی کا راستہ اختیار کرلیتا اور رجسٹرار بن کر،پروفیسری کی دوڑ میں شامل ہوجاتا،یا پھر ملک سے باہر چلا جاتا یا پھر اپنے خوابوں کی تکمیل کرتا۔

اس نے مشکل ترین تیسرا راستہ چنا،اور اس کا یہی راستہ آج کی اصل گونج ہے۔
 اس شخص نے دنیا بھر میں جگر کی پیوندکاری کی ٹریننگ کے لیے ای میلز کرنا شروع کیں، اس کو چند ماہ کہیں سے کوئی جواب نہ آیا، مگر بالآخر تائیوان میں جگر کی پیوندکاری میں فیلوشپ کی ایک سال کی ٹریننگ کے لیے اس شخص کا بلاوا آگیا۔ اب جیب میں ایک روپیہ نہیں تھا، مگر خواب بہت بڑا تھا۔

وہاں سے چھ ماہ کی مہلت مانگی اور سعودی عرب جاکر کام کرنا شروع کردیا،چھ ماہ میں اتنا پیسہ جمع کرلیا کہ اگلے دو سال یہ شخص اپنا گزارا آرام سے کرسکتا تھا۔ تائیوان جا کر جگر کی پیوندکاری میں ٹریننگ مکمل کی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان میں ہیپاٹائیٹس تیزی سے پھیل رہا تھا اور بھارت پورے ایشیاء میں جگر کی پیوندکاری کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا تھا۔

پاکستان کے صحت کے شعبے کے لیے یہ شرم کا مقام تھاکہ دنیا کے بہترین ڈاکٹر پیدا کرنے والا ملک جہاں ان ڈاکٹروں کو امریکہ برطانیہ ایکسپورٹ کررہا تھا،وہیں جگر کے ٹرانسپلانٹ کے مریض بھارت جا کر پچاس ساٹھ لاکھ میں اپنا علاج کرارہے تھے۔ مریضوں کو ویزا مشکلات کے ساتھ ،پیسوں کی بھی شدید دشواری کا سامنا تھااور اس معاملے پر سرکار خاموش تھی۔

 لاہور میں جگر کی پیوندکاری کا سرکاری یونٹ ابھی ابتدائی مراحل میں تھااور کسی طور کامیاب نہیں تھا۔ ایسے میں اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں جگر کی پیوندکاری شروع ہوئی ،ستر سے اسی لاکھ میں یہ آپریشن شروع کیا گیا،مگر بھارت اور چین ابھی بھی مریضوں کی اولین ترجیح بنا ہوا تھا۔ یہ شخص بھارت کے جگر کی پیوندکاری کے سب سے بڑے سرجن ڈاکٹر سبھاش گپتا کے پاس ٹریننگ کے لیے چلا گیا، پاکستان آکر اسلام آباد کے نجی ہسپتال میں کام شروع کیا،مگر کیونکہ سنٹرز کو پھیلنا تھا،یہ شخص لاہور کے نجی ہسپتال میں آگیا۔

یہاں جگر کی پیوندکاری شروع کی، تو پاکستان کے عمومی سانپ سیڑھی کلچر کا شکار ہوگیا۔
 اس شخص نے سالوں محنت سے جس جگر کی پیوندکاری کے یونٹ کی بنیاد ڈالی،اس پر بین لگ گیا،وہ بند ہوگیا اور ساتھ ہی خوابوں کی تعبیر پر بھی تالے لگ گیا۔ میں نے آخری بار ڈاکٹر وہاب ڈوگر کو پھر اسلام آباد میں دیکھا۔ اب کی بار یہ شخص اسلام آباد کے ایک اور ہسپتال میں جگر کی پیوندکاری کا یونٹ بنانے جارہا تھا۔

ادھر لاہور میں کڑوڑوں روپے کی لاگت سے ن لیگ کے دورِ حکومت میں سرکار جگر کی پیونکاری کا بہترین یونٹ بنارہی تھی،پوری دنیا خاص کر امریکہ سے مہنگے ترین ڈاکٹر بلواکر لاہور میں ملکی صحت کی تاریخ کا مہنگا ترین پروجیکٹ بنایا جارہا تھا۔ سرکار کی نیت ٹھیک تھی،وہ ملک میں مفت جگر کی پیوندکار کی بنیاد ڈالنا چاہتی تھی ۔ یہ شخص جو ایسے پروجیکٹ کے لیے ایک سستی چوائس ہوسکتا تھا، میڈ ان پاکستان کی وجہ سے اس کا حصہ تو نہ بنا،مگر اس کو ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نامی ایک ایسا شخص اٹھا کر اسے سندھ کے ریگستانوں میں ضرور لے گیا،جہاں سسکی سے ہچکی تک کی عملی زندگی کا ملاپ ہوگیا۔

یہ سندھ گمبٹ کا پسماندہ ترین علاقہ تھا،جس کا ذکر میں پچھلے ہفتے کی تحریر میں کرچکا ہوں،یہاں ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی پیتالیس سال سے سندھ حکومت کی مدد سے گمبٹ میں ایک ڈسپنسری کو ایک عظیم الشان ہیلتھ کمپلیکس میں تبدیل کرچکا تھا۔
یہاں گردوں، آنکھوں کے ٹرانسپلانٹ ہورہے تھے،مگر جگر کی پیوندکاری اس علاقے میں ایک چیلنج تھی اور اس سے بھی بڑا چیلنج اس پیوندکاری کا مفت ہونا تھا اور یہ سننے میں ہی ناممکن تھا۔

ڈاکٹر وہاب ڈوگر کو ڈاکٹر رحیم بخش نے سرکاری ہسپتال کے اندر ایک خود ساختہ ماڈل بنانے کے لیے فری ہینڈ دے دیا۔یہ ڈاکٹر ڈوگر فارمولے یا ماڈل کا آغاز تھا۔اس شخص نے کڑوڑوں روپے کے ڈاکٹر باہر سے منگوانے کی بجائے ،پاکستان میں نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم بنانی شروع کی۔یہ ٹیم نوجوان سرجنز، نشہ والے ڈاکٹروں اور معدہ و جگر کے ڈاکٹروں پر مشتمل تھی۔

اس ٹیم کو بنانے میں تین سال لگے۔ اس ماڈ ل پر پہلے ڈاکٹر رحیم بخش جرمنی سے جگر پیوندکاری کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو اسی طرح کا فری ہینڈ دے کر ان سے یہ معجزہ کرانے کی کوشش کرچکے تھے اور یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔ ڈاکٹر وہاب ڈوگر کا ماڈل بظاہر ایک چیلنج تھا۔ گمبٹ کے علاقے میں،کڑوڑوں روپے کی مشینری منگوا کر،میڈ ان پاکستان ،نوجوان ڈاکٹروں سے مفت جگر کی پیوندکاری کا میگا پراجیکٹ۔

آپ میرا آخری جملہ پنجاب کے سرکاری ایوانوں میں رکھنے کی کوشش کریں،تو قہقہوں کا شور آپ کو بڑی عمارتوں کے سفید گنبد توڑتا دکھائی دے گا۔ 
جہاں یہ سب لاہور میں اربوں ڈالرز میں ممکن نہیں ہوا، خود گمبٹ میں جرمن بہترین ڈاکٹرز ناکام ہوگئے،وہ ڈاکٹر وہاب ڈوگر اور ان کی نوجوان ٹیم کیسے کرسکتی تھی؟ میں یہ سب خود دیکھنے کے لیے سکھر ائیر پورٹ پر اترا، ریت ،کھجوروں کے درخت اور سخت گرمی، مجھے خود پر یقین نہیں تھا،کہ میں اس علاقے میں وہ سب دیکھنے آیا ہوں،جو بڑے بڑے شہروں میں ناکام ہوا ہے۔

ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر ،میری آنکھوں کے سامنے،ایک غریب آدمی کا مفت جگر کا ٹرانسپلانٹ کررہے تھے۔یہ اسی ریگستان میں 90واں ٹرانسپلانٹ تھا، اور وہ شخص جس نے اپنا سفر خالی جیب سے سعودی عرب جاکر شروع کیا تھا،آج میرے سامنے ملک کے کامیاب ترین جگر کی پیوندکاری کے سرجن کے طور پر کھڑا تھا۔ یہ صحرا میں کسی ایسے سراب جیسا تھا،جو حقیقت رکھتا تھا، یہ سب سچ تھا۔

آپ ایک ایسے ملک کے باسی ہوں،جہاں بڑے شہروں کے تحصیل ہسپتالوں میں رات کے اندھیروں میں عام نزلہ کھانسی بخار کی دوائی نایاب ہو،وہاں آپ اسی ملک کے پسماندہ ترین علاقے میں،اسی ملک کی پیداوار ڈاکٹروں کو جب جگر کی پیوندکاری کرتے دیکھیں گے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ 
آپ نے جہاں اپنی آنکھوں کے سامنے پھولے پیٹ لیے بچوں کو ہچکیاں لیتے مرتے دیکھا ہو،جہاں آپ نے کسی کی ماں کو خون کی الٹیاں کرتے اپنی اولاد کو آخری بار تکتے دیکھا ہو،جہاں آپ نے کسی کے باپ کو جگر کے کینسر کی درد میں اپنی بیٹی کے لیے آخری آنسو بہاتے دیکھا ہو،وہاں آپ تاریک ریگستان میں ملتان کے نواحی علاقے کے ایک ڈاکٹر کو جگر تبدیل کرتے ان سب آخری ہچکیوں کو خوشی کی سسکیوں میں تبدیل کرتا دیکھیں گے تو کیسا محسوس کریں گے؟ ڈاکٹر ڈوگر ماڈل یا فارمولے کی اصل یہ ہے کہ پورے پاکستان میں جگر کی پیوندکاری کے آپریشن کو غریب تک رسائی دی جائے،اس ضمن میں لوکل ڈاکٹروں کو زیادہ سے زیادہ ٹریننگ دی جائے،جگہ جگہ گمبٹ طرز کے یونٹ بنائے جائیں اور فری لیور ٹرانسپلانٹ کو عام کردیا جائے پھر اس کام کو بین الاقوامی مارکیٹ تک لے جایا جائے اور سری لنکا،نیپال اور ایشیاء کے دیگر ممالک کو سستی ترین جگر کی پیوندکاری کی سہولیات دی جائیں ،یہاں تک کہ پاکستان پوری دنیا میں سستے ترین جگر ٹرانسپلانٹ سنٹر کا مرکز بن جائے۔

پاکستان میں ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر اور ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی طرز کے جگر پیوندکاری ماڈل کو ڈریم ماڈل بنا کر پورے ملک میں صحت کے ہر شعبے پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ لوگ اندھیروں میں چراغ جلا کر سورج جیسا اجالا کرسکتے ہیں،تو روشن شہروں میں ایسے چراغ کیا انقلاب لائیں گے ،اس کا اندازہ خود پالیسی سازوں کو کرنا ہوگا۔ ضروری نہیں کہ ہم پاکستا ن کے صحت کے شعبے میں انقلاب کا آغاز گوروں کی غلامی سے کریں،ہم چاہیں تو ہم خوداپنا ایسا نظام ترتیب دے سکتے ہیں جو پورے نظام کو ہماری اصل پر تبدیل کرکے انقلاب برپا کردے۔

پاکستان کے لیے اس سے بڑھ کر فخرکی بات کیا ہوگی کہ جگر کی پیوندکاری کے بادشاہ دیس بھارت میں بھی جگر کا ٹرانسپلانٹ مفت نہیں ہوتا،جبکہ ہمارے ملک میں یہ سب ایک پسماندہ ترین صحرا میں ہورہا ہے ۔ صحرا میں سسکی سے ہچکی تک عمل کا ڈاکٹر ڈوگر فارمولہ کتنی آخری ہچکیوں کو خوشیوں کی سسکیاں دے گیا،اس کے لیے آپ کو میری آنکھوں سے یہ صحرائی منظر دیکھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :