بارش ،اندھیرا ،اخلاقیات اور معاشرہ

پیر 18 نومبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ اکاؤنٹس کا دفتر تھا۔وہ ایک کلرک تھا اور میں افسر۔ لوہے کا بینچ ، کافی دیر انتظار کے بعد،وہی یہ بھی چاہیے،وہ بھی چاہیے والا راگ۔ جائز کام کو نوٹوں کے ٹائر لگانا تھے،ورنہ وہی منہ سے بہتی جھاگیں، لہجہ کی تلخی اور ہر کام میں تاخیری حربے۔ شام کافی دیر بارش تکتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ میں کس دیس کا باسی ہوں؟ جس تبدیلی کا خواب دیکھا تھا وہ کہاں ہے؟ نہ غریب کی غربت کم ہوئی،نہ میرے جیسے ڈاکٹر کلرک کلچر کے کرپشن زدہ تیزاب سے اپنا اندرتک جھلسنے سے بچا سکے،نہ نظام بدلہ،نہ روزگار ملا،نہ خوشحالی آئی۔

کچھ بھی نہیں بدلہ۔اتنے میں مجھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے سب سے مہنگے علاقے سے ایک ایسا شخص گرفتار ہوا ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کی وڈیوز میں ملوث تھا اور یہ سب ڈارک ویب سائٹس کو اٹلی میں بیچا جاتاتھا۔

(جاری ہے)

تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص دس سال پہلے برطانیہ سے پاکستان زبردستی ڈی پورٹ کرکے بھیجا گیا تھا،جہاں یہ Save the Children نامی تنظیم کے ساتھ کام کرتا تھا اور وہاں بھی ایسے ہی جرائم میں یہ چار سال سزا کاٹ کر آیا تھا۔

حیران کن طور پر یہ شخص اب خیبر پختونخواہ سرکار کا ملازم تھا،اور پیشہ کے اعتبار سے چارٹر اکاؤنٹنٹ ہوتے ہوئے تین لاکھ تنخواہ بھی لے رہا تھا۔ یہاں میں قارئین کی توجہ اس بات پر دلاتا چلوں کے زینب کیس میں جس ملزم عمران کو پھانسی دی گئی تھی،اس کا بھی ایسے ہی کسی نیٹ ورک کے ساتھ ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا، مگر ہائی پروفائل کیس کی وجہ سے معاملہ عمران تک ہی رہا،اس کو پھانسی ہوگئی،اور ایک سیریل کلر کی فائل بند ہوگئی۔

مگر PEDOPHILIA کے اس انٹرنیشنل گروہ تک کاروائی نہیں کی گئی۔PEDOPHILIA ایک دماغی عارضہ ہے،جس میں انسان چھوٹے بچوں کے ساتھ سنگین غیر اخلاقی یعنی جنسی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اٹلی سمیت کئی ممالک میں اب ایسی سوچ کے حامل لوگ، Silicon Valley طرز کی غیر اخلاقی فلموں کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ دنیا اکثر ممالک میں Adult مواد کو قانونی اجازت حاصل ہے، ایسی فلموں کو شوٹ کرنا،پھیلانا بھی لائیسنس کے بعد منع نہیں ہے اور نہ ہی ایسی ویب سائیٹس ،یہ اربوں روپے کا بزنس کرتی ہیں اور ان کی آڑ میں کئی ماڈلز پوری دنیا میں اربوں روپے کمانے کا ذریعہ ہیں۔

مگر دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں جنسی پاگل پن یا ان سے متعلق فلموں کی اجازت ہو،PEDOPHILIA ان میں اس ایک ہے۔اب جس طرح ہیرؤن کی سمگلنگ پر پابندی ہے،مگر یہ کئی کڑوڑ ڈالرز کا کاروبار ہے،اسی طرح ڈارک ویب،یعنی جنسی پاگل پن پر مبنی ایسی تشدد زدہ فلمیں بھی دنیا میں بہت مہنگا کاروبار ہے اور اس کے کئی انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک دنیا میں کام کررہے ہیں۔

جو شخص پکڑا گیا،اس کی وڈیو وائرل ہوئی اور اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ اس اعتراف نے زینب کیس سمیت،ہر ایسے کیس پر ایسے نیٹ ورک کے پاکستان میں موجود ہونے پر سوال کھڑے کر دیے ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس قوم کی نسلوں کا کچھ محفوظ نہیں ہے۔ یہ نیٹ ورک پاکستان میں چند وجوہات کی بنا پر بڑی آسانی سے کام کرسکتا ہے ،پہلی وجہ غربت ہے،دوسری آبادی ،جس میں غرباء کے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور تیسرا فرسٹیشن۔

وہ فرسٹیشن جو آپ کو ایک مشہور گلوکارہ کی نازیبا وڈیوز وائرل ہونے کے بعد نظر آئی۔اس معاشرے کا سوشل میڈیا، کشمیر بھول گیا،مولانا کا دھرنا بھول گیا، ملکی سلامتی کے کئی اہم امور ،ان وڈیوز میں دب گئے،اور ہر وٹس ایپ،انسٹا گرام اور فیس بک وغیرہ پر انہی کا تذکرہ ہونے لگا۔ اسی طرح اور وڈیوز بھی سامنے آنے لگیں اور کئی سکینڈلز نے معاشرے کے سوشل میڈیا کو اپنا گھر بنالیا۔

یہ وڈیوز کہاں سے وائرل ہوئیں؟ کیوں ہوئیں؟ یہ سوال بعد میں، پہلا سوال یہ ہے کہ یہ بنائی ہی کیوں جاتی ہے؟ اس کی وجہ وہی فرسٹیشن ہے،جو اس ملک میں پیڈوفیلیا جیسا نیٹ ورک کی موجودگی کی بھی کسی طور وجہ ہے۔ہم پوری دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں مغربی تہذیب کے مطابق آپ کو ڈیجیٹل دنیا میں پوری آزادی ہے۔آپ کو ہر طرح کی ویب سائیٹس تک با آسانی رسائی ہے،سوشل میڈیا کے آنے کے بعد،بچے بچے کے ہاتھ میں فون ہے اور جو باتیں ہمیں بلوغت میں سمجھ آنا شروع ہوئیں تھیں ،ان میں آج پانچویں چھٹی کے بچے نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

دوسری طرف غربت نے یہاں نکاح کو مشکل ترین بنا دیا ہے، یہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر تیس بتیس عام ہورہی ہے تو لڑکے تو اب چالیس سال تک شادی کے لیے لڑکے ہی ہیں۔ایسے معاشرے میں بے راہ روی کیسے نہیں ہوگی؟ یہ سوال سمجھ سے بالاتر ہے،اگر آپ بطور ڈاکٹر بھی میری رائے لیں،تو یقینا یہ سب انسان کی بنیادی ضرورت پر اس کو شدید فرسٹیٹ کردینے کے مترادف ہے۔

مطلب معاشرہ ایک ایسی روش کا شکار ہے،جہاں بھوکے خوفناک،ہیجان زدہ بھیڑیے پیدا کرکے ،چھوڑ دیے گئے ہیں،اور ان کو مل کچھ نہیں رہا۔ایسے میں آپ یہ سوال کریں کہ یہ وڈیوز کیوں بنائی جاتی ہیں؟اس کا جواب پانا مشکل نہیں۔ حیران کن طور پر پاکستان کا اس قسم کی وڈیو لیکس میں نمبر بھارت کے برابر ہے،وہ بھارت جو ویب سیریز کے نام پر کسی طور اڈلٹ مواد کو جائز قرار دے چکا ہے۔

یہاں کئی لوگ اسی فرسٹیشن میں جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے،ایسے قدم اٹھا لیتے ہیں ،جن کا پھیل جانا سوائے بربادی کے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے مواد پر اسی ملک میں کتنے گھروں کی لڑکیاں خود کو ختم کرچکی ہیں،کتنی بلیک میل ہوکر تاریک راہوں کا شکار ہوچکی ہیں ،اور کتنے عزت دار گھرانے تباہ ہوچکے ہیں،اس کا حساب رکھنا ناممکن ہے۔ یہ سب ایک ایسے معاشرے میں ہورہا ہے،جہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی سب یہاں اب ہولناکی کی حد تک اٹلی ،رومانیہ کے ایسے ڈارک ویب گروہوں کو بھی کام کرنے کی جگہ دے رہا ہے۔

ایسے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے یاں خاموش ہیں،یا پھر معاملے کو دبا رہے ہیں۔اگر یہ سلسلے جاری رہے،تو وہ وقت دور نہیں جب اس دیس کے اشرافیہ باڈی گارڈز کے ساتھ بچوں کو سکول بھیجا کریں گے اور غریبوں کے بچوں کی لاشیں کھیتوں سے ملتی رہیں گی۔اسلام آباد کی بارشوں کے شور میں ،مجھے ایک نسل تباہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔جہاں ایک طرف ہم بے راہ روی کی آخری حدیں چھو رہے ہیں،وہیں ہم ایسے جرائم کا بھی حصہ ہیں،جن پر بات کرنا ہی کسی معاشرے کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

جب معاشرے اس انتہا کی پستی میں ڈوبے ہوں،تو پھر میرا بھی منہ سے بہتی جھاگوں، لہجہ کی تلخی اور ہر کام میں تاخیری حربے پر مایوس ہونا نہیں بنتا۔ اخلاقی کرپشن، روح کی کرپشن ہے،آپ معاشرے میں نکاح مشکل کرتے جائیں،ہر طرح کی بے راہ روی عام ہوگی۔ جب روح گندی ہوگی،تو ہر طرف کرپشن ہوگی،گدوں کی چونچیں ہوں گی،شیطان کی آنکھیں ہوں گی اور ہیجان زدہ بھوکے بھیڑیے ہر سو پھیلے نظر آئیں گے۔

اب وہ آپ کی جیب نوچیں،بچے نوچیں یا عزت،یہ آپ کی قسمت ہے۔ ایسا تو شاید جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا، البتہ اندھیری بارشوں میں ہوتا ہے، ہیجان زدہ،خونی بارشوں میں،جہاں غربت ٹھنڈ میں سسکی لے تو آواز نہیں آتی،بچے کی چیخیں اندھیر ویب سائیٹس پر ہوں تو آواز نہیں آتی، جہاں راتوں کے اندھیروں میں اپنے ہاتھ سے اپنے آپ نیلام کیے جائیں تو آواز نہیں آتی۔ بس اندھیرا ہوتا ہے،بارش ہوتی ہے ،گھورتی وحشت زدہ آنکھیں ہوتی ہیں، اخلاقیات کے جنازے ہوتے ہیں اور ہر طرف گلی سڑی معاشرتی بے حسی کا تعفن ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :