کورونا وائرس ،قیامت اور ہم۔

پیر 23 مارچ 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

چین کے ڈاکٹر لی وینلینگ نے دسمبر 2019ء میں حکومت کو تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس کے بارے میں پیشگی تنبیہ کی،ووہان کی پولیس نے اس پر ایکشن لینے کی بجائے،الٹا ڈاکٹر لی کے خلاف ایکشن لے لیا۔ان کو اس قسم کی خبر پھیلانے سے سختی سے روکا گیا اور ان سے ایک معاہدے پر دستخط کروائے گئے کہ وہ ایسی خبر نہیں پھیلائیں گے۔ ڈاکٹر لی تو چپ کرگیا،مگر وائرس ووہان میں تیزی سے پھیلنے لگا، جب جنوری میں حالات قابو سے باہر ہوگئے تو مجبور ہو کر چینی حکومت کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کو یہ بات بتانا پڑی،مگر تب تک پورا ووہان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔

ڈاکٹر لی وینلینگ کورونا مریضوں کا علاج کرتے7 فروری کے پہلے ہفتے میں خود کورونا وائرس کا شکار ہوکر 34 سال کی عمر میں جاں بحق ہوگئے۔

(جاری ہے)

مارچ 2020ء میں کورونا وائرس بڑی تباہی مچا چکا تھا،یہ تباہی ووہان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی اور چینی حکومت ووہان پولیس کی غلطی کو پوری دنیا میں کورونا وائرس پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ قرار دے رہی تھی۔

ڈاکٹر لی کو آج چین میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ آنکھوں کے اس ڈاکٹر کو اپنی ہی ایک مریضہ سے کورونا منتقل ہوا جو بعد میں جان لیوا ثابت ہوا ، مگر ڈاکٹر لی کی موت نے یہ بات ثابت کردی کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اگر حقیقت دنیا سے چھپا کر کام چلانے کی کوشش کریں تو وہ بہت بڑی مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر لی کے ساتھ جو سلوک ووہان پولیس نے کیا،وہ پوری دنیا نے کورونا وائرس کے ساتھ کیا اور یوں وائرس نے بھی پوری دنیا کا وہ حشر کیا جو ووہان کا کیا۔

آج پوری دنیا منجمد ہے، عبادت گاہیں، جم، سینما،پارک سب بند ہیں،اربوں روپے کی اکانومی تباہ و برباد ہوچکی ہے اور کورونا کا وائرس پوری دنیا میں بے قابو پھیلتا چلا جارہا ہے۔ چین کے بعد اٹلی ،جنوبی کوریا اور ایران کو بدترین طریقے سے متاثر کرنے کے بعد، یہ وائرس پاکستان میں بھی گھس آیا ہے اور اب کیس بڑھتے چلے جارہے ہیں۔اٹلی نے شروع میں یورپ سے تجارت اور آمد و رفت برقرار رکھنے کے لیے کورونا کو چھپایا ،مگر یہ اٹلی میں بہت شدت کے ساتھ پھیل گیا ۔

سب سے پہلے دو چینی سیاح جو روم آئے تھے، ان میں یہ وائرس پازیٹیو ہوا،پھر اطالوی باشندوں میں بھی یہ پازیٹیو آنے لگا، یہ چینی شہری ووہان سے روم آئے تھے۔ یہ وائرس اٹلی میں اتنی تیزی سے پھیلا کہ 3,405 اطالوی شہریوں کی جان دیکھتے ہی دیکھتے نگل گیا۔یہ تباہی چین سے بھی زیادہ تھی، پھر یہ تباہی ایران میں دیکھنے میں آئی اور ایران کا جھوٹ پاکستان کی بہترین کوششوں کے باوجود اس وائرس کو پاکستان لے آیا اور آج ہم سب اپنے گھروں میں قید ہیں۔

ایران میں یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب تک مرنے والوں کی تعداد 1,284 ہے۔ جب ووہان میں کورونا وائرس پھیلا تو پاکستان نے ہر قسم کا زمینی اور آسمانی رابطہ ووہان سے ختم کردیا،یوں چین کے راستے یہ وائرس پاکستان داخل نہیں ہوسکا۔ ایران میں کوم کے علاقے میں پہلے دو ٹیسٹ پازیٹیو آئے اور یہ دونوں مر گئے، مگر ان کے بعد پورے ایران سے ہی کیس رپورٹ ہونے لگے، ایران حال ہی میں امریکہ کے ساتھ جنگی حالات اور ایک طیارہ کو غلط مار گرانے کی وجہ سے پوری دنیا کی نظروں میں غلط تاثر لیے تھا، چنانچہ ایران نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی تمام ہدایات کے برعکس اس بیماری کے بارے میں دنیا کو کوئی آگاہی نہیں دی،نہ ہی مناسب Quarantine یعنی قرنطینہ سینٹر بنائے گئے اور یوں یہ وائرس قابو سے باہر ہوگیا۔

پاکستان سے زائرین کی بڑی تعداد سال کے بارہ ماہ ایران میں عمومی طور پر موجود ہوتی ہے، ایسا ہی سال کے اس حصے میں بھی تھا، یہ لوگ ایران کی عوام کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں اور یہیں سے یہ وائرس پاکستانیوں میں منتقل ہوا۔ اس وقت تک جب یہ کالم تحریر کیا جارہا پاکستان میں کورونا وائرس کے پازیٹیو کیسز کی تعداد 456 ہے،جبکہ اموات منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز کے مطابق تین ہیں۔

پاکستان میں ایران سے آئے زائرین کو قرنطینہ سینٹر تفتان میں رکھا گیا اور بلوچستان میں موجود یہ قرنطینہ سینٹر ایک صحرا میں ہونے کے باعث نا مناسب سہولیات کی وجہ سے پاکستان کے لیے ووہان ثابت ہوا۔ یہ پانچ سے چھ ہزار زائرین لائے گئے، ان میں سے کئی افراد شدید حکومتی تنبیہ کے باوجود یہاں سے چلے گئے اور جو رہ گئے وہ بھی بدترین پھیلاؤ کا باعث بن گئے۔

ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ ان افراد کو جبری ان سینٹرز میں رکھا جاسکتا اور یہیں چودہ دن کے لیے جہاں پازیٹیو کیسز کو مکمل طور پر بند رکھنے کی ضرورت تھی ،وہ تفتان کی مقامی آبادی سے بھی ملتے رہے، اور کچھ زمینی راستوں سے بھاگ کر اپنے علاقوں میں پہنچنے کی کوشش میں کئی شہر متاثر کرتے گئے۔ قرنطینہ کے بارے میں انٹرنیشنل قوانین یہ کہتے ہیں کہ ایسے مریض کو کہ جس میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ پازیٹیو آجائے اس کو تو دوسرے کسی بندے سے ملنے بھی نہ دیا جائے، یہ مریض گھومتے پھرتے رہے،بلکہ دیگر مشتبہ افراد جو تفتان رکھے گئے ،جن کے ابتدائی ٹیسٹ نیگیٹیو تھے ،ان میں بھی وائرس منتقل کرتے رہے۔

بڑی آبادی والے ملک میں قرنطینہ کی مناسب سمجھ نہ ہونا، عوام کا با شعور نہ ہونا اور ہنگامی حالات میں سہولیات کا نہ ہونا ،پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب بنا۔ ایسے میں ابتدائی غلطی ایران نے کی اور پھر غلطیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے چل نکلے اور اب یہ وائرس پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ غلطی سرکار سے زیادہ عوامی تھی،جہاں عوام نے قرنطینہ کے معاملے میں کسی طور سرکار سے تعاون نہیں کیا،انہیں گھر جانے کی جلدی تھی اور وہ کسی طور وہاں پہنچے اور پورے کے پورے شہر خطرے میں ڈال دیے۔

بد قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے کہ جہاں سے دنیا سے تین دہائیوں پہلے ختم ہونے والا پولیو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا تو ہم اتنی بڑی کم شرح خواندگی رکھے آبادی والے ملک میں یہ امید کیسے لگا لیں کہ یہاں جو تباہی آئے گی وہ فرسٹ ورلڈ سے کم ہوگی؟ اگر یہ تعداد اسی طرح بڑھتی گئی تو شاید یہ نمبر اٹلی سے زیادہ ہوگا اور ہمیں اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

اب ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ جیسے ہی سکول ،کالج، جم ،پارک بند ہوئے، گھر بیٹھی عوام نے جھوٹی خبروں سے مزید افراتفری پھیلانا شروع کردی اور اس کا سب سے بھیانک پہلو، ڈاکٹرز،نرسز اور پیرا میڈیکس کی حونصلہ شکنی تھا کہ انہوں نے کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا کے بعد ایک بڑے میڈیا چینل نے بریک کردی اور ہم نے بغیر تصدیق کے اپنی اس فوج کو برا بھلا کہنا شروع کردیا جو کورونا وائرس کی جنگ میں فرنٹ لائن آرمی کا کردار ادا کررہی تھی۔

یہ سب یقینا قومی پستی کے ساتھ جنگ ہارنے کی نشانی ہے، مطلب آپ کسی قوم کی جیت کی امید کیسے لگا سکتے جو گھر بیٹھے اور بیٹھ کر اپنی فوج کا حونصلہ پست کرے۔یہ سب شرمناک ہے۔ کورونا وائرس 180 ممالک میں پھیل گیا ہے، ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار پچاس تک پہنچ چکی ہے،جبکہ پازیٹیو کیس ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں 218 افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں، ایسے میں پاکستان میں اس وائرس سے بچنے کے لیے بہت بڑی جنگ کی ضرورت ہے۔

ہماری آبادی، وسائل اور عوامی رویہ ہر طرح سے ایک بڑی آفت کو دعوت دے رہا ہے اور یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو یہ وائرس ہر گھر پہنچ جائے گا، بڑی تباہی آئے گی اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ یہاں حکومت کی کارکردگی عوامی رویے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں، جس کی تعریف خود WHO نے کی ہے، مگر تفتان کے معاملے میں قرنطینہ سے وائرس کا پھیلاؤ،اب سرکار کے لیے مزید مشکل امتحان ہے۔

عوام کو چاہیے کہ ووہان کے شہریوں کی طرح سرکار اور ڈاکٹروں،نرسز کا ساتھ دے۔ اس بیماری کا یہاں رک جانا ضروری ہے ،نہیں تو یہ کیسز جہاں دو سے آج 456 ہوگئے ہیں یہ اس تعداد سے ہزاروں لاکھوں میں منتقل ہوں اور اموات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ وائرس سانس کی نالیوں میں منفی آنے کے بعد بارہ دن تک انسانی فاضل مادے کے ذریعے بھی پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے بچنے کا واحد حل ،اس کو کسی طور انسانی جسم میں داخل ہونے سے روکنا ہی ہے۔

اب تک صرف ملیریا کے لیے استعمال ہونے والی کلوروکوئین اور ایڈز اور ایبولا وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی ریم ڈیسی ور ہی تحقیق میں اس وائرس کے لیے کار آمد ثابت ہوئی ہے، مگر اس کی کوئی ویکسین تیار نہیں کی جاسکی،تیاری جاری ہے اور اس میں بارہ سے اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں اور اتنا وقت شاید یہ وائرس کسی طور ہمیں دینے کو تیار نہیں ہے اور ایسے قومی و اخلاقی رویوں کے ساتھ کسی طور نہیں۔ یہ موت کا ناچ ہے اور اس رقص میں تماش بینی ہم سب کو اس ناچ میں شامل ہونے پر مجبور کردے گی۔ یقینا قیامت آنے کو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :