کورونا وائرس اور کے ای ایم یو ٹیلی میڈیسن

اتوار 29 مارچ 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ایسا وقت دکھایا، جو تاریخ میں آج تک نہیں دیکھا گیا۔ پہلے Spanish Flu طرز کی وبائیں آتی تھیں، بڑی تعداد میں لوگ مرجاتے تھے۔ کورونا وائرس اس وقت میں آیا جب دنیا بہت زیادہ سیکھ چکی تھی،آپس میں ٹیکنالوجی کے باعث اس طرح جڑی تھی کہ یہ سب ایک گاؤں جیسا تھا، مل کے ایسی وباؤں سے لڑنا بھی جان چکی تھی اور فوری طور پر اقدامات کرنا بھی جانتی تھی۔

چین کے شہر ووہان میں جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو اس کو دنیا کے لیے بڑی بد قسمتی قرار دیا جارہا تھا، چین بڑا ملک تھا، آبادی اربوں میں تھی ،تجارت اور سیاحت عروج پر تھی،ایسے میں وائرس چین سے پھیلتا تو ہلاکت خیزی کو کوئی پیمانہ نہ روک سکتا تھا،نہ ناپ سکتا تھا، مگر چین نے بروقت ایسے اقدامات کیے کہ اس وائرس کو ووہان سے زیادہ باہر نہیں نکلنے دیا۔

(جاری ہے)

چین کا ووہان شہر ہوبے کے صوبے میں تھا،جہاں پندرہ شہر کورونا سے متاثر ہوئے، مگر یہ وائرس مہلک ترین اور بدترین ہوتے ہوئے بھی زیادہ پھیل نہ سکا اور اب جہاں پوری دنیا میں کورونا کے کیسز بڑھ رہے ہیں،وہیں چین میں زندگی معمول پر لوٹ رہی تھی۔ چین نے جیسے کورونا پر قابو پایا اس کو ووہان ماڈل کہتے ہیں اور اٹلی اب اسی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔ اٹلی نے چین جیسے اقدامات کرنے میں دیر کی اور آج اٹلی میں نو ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔

اسی طرح ایران اور پھر امریکہ کورونا وائرس کی بدترین زد میں آچکے ہیں۔ووہان ماڈل کی سب سے بڑی خوبصورتی چین کی عوام کا ٹیکنالوجی پر انحصار کرکے گھروں میں اور اپارٹمنٹس میں بند رہنا تھا۔ وہ اپنے کام انٹرنیٹ پر کرتے، کھانا ،ادویات بھی انٹرنیٹ کے ذریعے منگوائی جاتی تھیں،یہاں تک کہ ڈاکٹر سے مشورہ بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جاتا۔اس قرنطینہ نے پاکستان میں بھی اس ضرورت کو جنم دیا کہ جن لوگوں میں کسی قسم کی کورونا کی علامات ہوں، وہ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کریں اور اس ضمن میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا ٹیلی میڈیسن ماڈل راقم القلم نے پڑھا اور دیکھا۔

یہ جدت پر مبنی ایک شاندار مستقبل کا آغاز ہے۔کورونا وائرس کی وبا میں کے ای ایم یو اور اس کے ملحقہ ہسپتال بہترین کردار ادا کررہے ہیں۔ میو ہسپتال اور دیگر ہسپتال کوٹ خواجہ سعید،میاں منشی ہسپتال اور سید مٹھا ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ قائم کیے گئے۔اب ضرورت اس امر کی تھی کہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیفیت میں مریضوں کو گھر بیٹھے سپیشلسٹ ڈاکٹروں تک رسائی دی جائے اور اس میں کورونا وائرس کے ساتھ دیگر شعبوں کے ڈاکٹر بھی موجود ہوں،چنانچہ ٹیلی میڈیسن کے شعبے کا آغاز کیا گیا اور یہ انقلاب کی جانب قدم تھا۔

اس میں جن شعبوں کے لیے ڈیسک بنائے وہ میڈیسن،سرجری،آرتھو،جلد، سائیکائیٹری،اطفال،پھیپھڑوں،دل،گائینی،ای این ٹی کے شعبے تھے۔ان میں میڈیسن سے پروفیسر بلقیس شبیر،شعبہ سرجری سے پروفیسر اصغر نقی،آرتھو سے پروفیسر رانا دلآویز اور پروفیسر رانا محمد ارشد،شعبہ جلد سے پروفیسر اعجاز حسین، شعبہ سائیکائیٹری سے پروفیسر آفتاب آصف اور ڈاکٹر علی ہاشمی، شعبہ اطفال سے پروفیسر ہارون حامد،شعبہ پلمونالوجی سے پروفیسر ثاقب سعید، شعبہ کارڈیالوجی سے پروفیسر بلال محی الدین، شعبہ گائینی سے پروفیسر عائشہ ملک اور شعبہ ای این ٹی سے پروفیسر خالد چیمہ کی سربراہی میں صبح آٹھ بجے سے شام آٹھ بجے تک مریضوں کو گھر بیٹھے مفت مشورے دیے جارہے ہیں۔

اتنے نامور ڈاکٹروں کی سربراہی میں دن میں بارہ گھنٹے،اس وبا کی شدت میں گھر بیٹھے مشورہ ملنا ،یقینا بہت بڑی سہولت ہے۔یہ سب وٹس ایپ، سکائپ اور لینڈ لائن کے ذریعے کیا جارہا ہے ۔یعنی آپ وڈیو کال پر براہ راست ڈاکٹر کو دیکھ کر بھی بات کرسکتے ہیں۔ یہ سب چانسلر گورنر پنجاب محمد سرور کی خصوصی ہدایات پر کیا گیا، اور وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل نے فوری اسے عملی جامہ پہنایا اور اب کے ای ایم یو کو سنٹر آف ایکسیلنس بنا کر ایسا ملک بھر میں 27 اداروں میں کیا جائے گا۔

ملکی کی باقی میڈیکل یونیورسٹیاں بھی ایسے ہی ڈیسک بنا رہی ہیں اور یہ یقینا بہت بڑی قومی خدمت ہے اور اس میں یقینا گورنر پنجاب محمد سرور صاحب کو خاص کر کورونا کے شدید خطرے کے پیشِ نظر ایسے اقدام پر خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ٹیلی میڈیسن کے اس سنٹر کاسی ایم ایچ اور پی آئی سی کے ماہرین نے بھی دورہ کیا اور اس کو یقینا مریضوں کے لیے ایک نعمت قرار دیا۔

جنرل شہلا بقائی نے خاص طور پر وڈیو کوالٹی اور آواز پر تعریف کی اور اس کو پورے پاکستان کی غریب عوام کے لیے نعمت قرار دیا۔ٹیلی میڈیسن کے کمپیوٹر کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ تمام ڈیٹا مکمل طور پر محفوظ رکھتا ہے،اس سے نہ صرف مریضوں کا بھلا ہوتا ہے بلکہ اس کو مستقبل میں تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے لیے یہ مدد چوبیس گھنٹے فراہم کی گئی ہے،تاکہ رات کے کسی بھی پہر علامات ظاہر ہونے کی صورت میں کوئی بھی وٹس ایپ،سکائپ یا لینڈ لائن کے ذریعے ڈاکٹر سے بات کرے ،اپنی علامات بتائے اور اس بات کی تسلی کرلے کہ اس کو کورونا کا ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے یا نہیں ،ایسے میں نہ صرف مریض ہسپتال کے چکر سے بچ جائے گا،بلکہ وہ لاک ڈاؤن کی کیفیت میں ملکی قوانین کا بھی احترام کرے گا اور غیر ضروری طور پر ایک ایسی کیفیت میں گھر سے نہیں نکلے گا جہاں وہ کورونا وائرس کا شکار ہوسکے،یا پھر اگر اس میں کسی طور کوروناوائرس کا شبہ ہے تو اور لوگوں کو اس میں منتقل نہ کرسکے۔

یہ تمام نمبر ،سکائپ آئی ڈیز ، انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، یہ تمام علاج مفت ہے اور ملک کے کسی بھی کونے سے کسی بھی مریض کے لیے ہے۔ ووہان ماڈل اور ٹیلی میڈیسن میں ایک قدر مشترک نظر آئی اور وہ ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کرکے لوگوں کو گھروں میں ہی بند رکھنا تھا اور یہ ایسی کاوش ہے،جس سے پاکستان کو اگلا چین بنایا جاسکتا ہے۔ لوگ جتنا گھروں میں رہیں گے،اتنا ہی یہ وائرس پھیلنے سے رک جائے گا اور وہ غلطی جو اٹلی اور ایران میں ہوئی وہ یہاں نہیں ہوں گی اور ہم سب اس مہلک انفیکشن سے محفوظ رہیں گے۔

میں نے اپنے ایک نجی چینل کے شو میں وائس چانسلر کنگ ایڈور میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب سے ٹیلی میڈیسن پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے آؤٹ ڈور کا متبادل ہمارا ٹیلی میڈیسن آؤٹ ڈور ہے،جہاں ہر سپیشلٹی کا ماہر صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک موجود ہے اور ایک کورونا ٹیلی میڈیسن ڈیسک ہے جو چوبیس گھنٹے میسر ہے۔

اس کورونا کی وبائی کیفیت میں یہاں وائس چانسلر صاحب کا بتایا کورونا ہیلپ لائن کا نمبر تحریر کررہا ہوں تاکہ وبائی کیفیت میں آپ ملک بھر میں کہیں سے بھی اس نمبر پر فون کریں اور کورونا کی علامات کی صورت میں ہر طرح کی رہنمائی ماہر ڈاکٹروں سے بالکل مفت حاصل کریں 03041112101۔ ٹیلی میڈیسن کے ای ایم یو گورنر پنجاب اور وائس چانسلر صاحب کی طرف سے غریب عوام کے لیے تحفہ ہے ۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب نے ٹیلی میڈیسن کے شعبے کو اس وبائی کیفیت کے گزر جانے کے بعد بھی مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے بارے میں بتایا اور اس طرح یہ سلسلہ اب جاری رہے گا۔ اس وقت پوری دنیا میں ڈاکٹروں،نرسز اور دیگر ہیلتھ پروفیشنل فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کررہے ہیں اورپاکستان سمیت پوری دنیا کے یہ عظیم مسیحا اس موذی وائرس کے خلاف جہاد میں اپنی جانوں کا نظرانہ بھی پیش کررہے ہیں۔

ایسے میں گلگت سے تعلق رکھنے قائد اعظم میڈیکل کالج بہالپور کے ڈاکٹر اسامہ ریاض پاکستان کے وہ پہلے ڈاکٹر ہیں،جنہوں نے اس جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا،یہ وقت بتائے گا، مگر جہاں ڈاکٹرز یہ جنگ لڑرہے ہیں،وہیں اس قلم کے ذریعے عوام سے اپیل ہے کہ آپ گھروں میں رہ کر اپنی اس فوج کا ساتھ دیں۔ آپ کو گھر میں رہ کر ووہان ماڈل جیسی جنگ لڑنی ہے ،آپ کو کورونا کی علامات ہیں تو آپ ٹیلی میڈیسن سے فائدہ اٹھائیں اور آپ کسی طور گھر سے باہر نہ نکلیں۔

ووہان یہ جنگ ایسے ہی جیتا ہے اور ہمیں بھی یہ جنگ گھر میں رہ کرجیتی ہے۔ چودہ دن کی قید ہمیں اٹلی بننے سے بچا لے گی اور یہ قید ہمیں ووہان اور چین کے شہریوں کی طرح کاٹنی ہے۔ جتنا ہوسکے خودکو گھر میں مصروف رکھیں، انٹرنیٹ سے مستفید ہوں، لکھنے پڑھنے کے عمل سے گزریں اور اپنی کسی بھی بیماری کے لیے ٹیلی میڈیسن سے فالو اپ حاصل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ غریب نادار لوگوں کی مدد کریں، اس کے لیے رمضان کا انتظار کیے بغیر، غریبوں کے گھر راشن پہنچائیں اور ان کو اس جنگ میں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔اپنا اور اپنا ساتھ والوں کا خیال ہی ،کورونا کے خلاف جنگ میں ہماری اصل جیت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :