کس دھج سے کوئی مقتل میں گیا

ہفتہ 25 جولائی 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

پاکستان سے بظاہر کورونا وائرس جارہا ہے۔یہ وقتی رخصت ہے ،اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان ٹاپ پانچ ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے کورونا وائرس رخصت ہو رہا ہے۔پڑوسی ملک میں ابھی بھی کورونا کا اژدھا قابو سے باہر ہے اور اس کی تباہ کاریاں کسی کے قابو میں نہیں ہیں۔ ہم جو آج حاصل کرنے جارہے ہیں، شاید دو ماہ پہلے کر چکے ہوتے ،اگر چھوٹی عید پر ہم نے انسانی رویوں کو قابو میں رکھا ہوتا اور وہ تباہی نہ مچائی ہوتی،جس نے ہمیں یہاں لاکھڑا کیا۔

پاکستان کا شمار چین ،اٹلی ،امریکہ کے ساتھ کسی طور ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کورونا وائر س نے بدترین تباہی مچائی،یہ اٹلی ،امریکہ سے کم تھی، مگر پھر بھی اس کا تناسب دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ تھا۔ پاکستان میں تقریبا تین لاکھ کیس رپورٹ ہوئے، پانچ ہزار سات سو سے زائد اموات ہوئیں اور اب بھی پینتالیس ہزار کیسز ایکٹیو حالت میں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

یہ شرح بھارت سے بہت کم ہے،جہاں کل کیسز کی تعداد چودہ لاکھ ہے اور اموات بتیس ہزار کے قریب ہیں اور ابھی بھی ساڑھے چار لاکھ ایکٹیو کیسز موجود ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس وائرس کی قسمت کیا ہوگی۔ اس وقت امریکہ ،چین،برطانیہ اس کی ویکسین بنانے کے فیز تھری یعنی آخری ٹرائل میں ہیں اور کہا یہی جارہا ہے کہ وہ اس کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور اگر ایسا ہوجائے گا تو یہ وائرس بھی سپینش فلو کے انفلوئینزا کی طرح تاریخ ہوجائے گا۔

بس ہماری نسلیں یاد رکھیں گی کہ کورونا وائرس چین کے شہر وہان سے آیا تھا اور اس نے دنیا میں تباہی مچائی دی، عملی طور پر اتنی طاقتور دنیا کو مفلوج کردیا تھا، دنیا بھر کے کاروبار رک گئے تھے، اور ہر طرف موت کا راج تھا۔ دنیا کی اکانومی زمین پر آگئی تھی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے تھے اور پھر دنیا کو اس سے سنبھلنے میں عرصہ لگا تھا۔ اس وائرس کو نسلیں سپینش فلو سے بھی زیادہ شدت سے یاد رکھیں گی کیونکہ اس وائرس کے خوف نے ایک ایسی دنیا کو جکڑا ہے جو گلوبل ویلج بن چکی تھی، ڈیجیٹل دنیا تھی اور جہاں انسان کو اپنی طاقت پر غرور تھا۔

ہمارے بچے جب کی وباؤں کی تاریخ اٹھائیں گے اس میں پہلے نمبر پر 1346ء کا طاعون، پھر 1918ء کا سپینش فلو اور پھر 2019ء کا کورونا وائرس یاد کریں گے۔ شاید سب ماضی ہوجائے گا،مگر جن کے جانے والے چلے گئے ،ان کے گھر میں ہمیشہ اس کا سوگ رہے گا۔میں ذاتی طور پر اپنے انتہائی قریبی لوگوں کو اس کورونا وائرس میں کھو چکا ہوں، اکثریت اس سے متاثر ہوئی ہے اور بطور ڈاکٹر میں نے انتہائی قریبی ساتھیوں کو اس مرض میں پازیٹیو پایا ۔

اب بھی ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ کب کوئی کورونا پازیٹیو کیس آپ کو متاثر کر جائے اور اس سے بھی بڑا خوف یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کا کوئی انتہائی قریبی اس مرض میں مبتلا ہوجائے۔ اس جنگ میں پاکستان نے پچاس سے زائد ڈاکٹر کھو دیے اور ان میں طالب علم، جونئیر ڈاکٹروں سمیت ،پروفیسرز تک شامل تھے۔ اس جنگ میں ایک بڑا نقصان میرے قریبی استاد پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا شہید صاحب کا تھا، وہ ملک کی ایک بڑی میڈیکل یونیورسٹی، نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور اس ملک کا سرمایہ تھے۔

ایک بہترین سرجن ،استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحتوں کے مالک خداترس اور بہترین انسان تھے۔ کورونا وائرس کی وباء کے دوران سب سے زیادہ فعال ترین ڈاکٹروں میں ایک بڑا نام ان کا بھی تھا۔نشتر میں ٹیلی میڈیسن کے شعبے سمیت،کورونا وارڈز کے قیام سے لے کر شعور و آگاہی کے کئی ماسٹر پلان انہی نے ترتیب دیے تھے۔ پاشا صاحب اسی جنگ کے دوران کورونا کا شکار ہوگئے۔

ا س دوران ان کی آئی سی یو سے ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں انہوں نے اپنی صحت یابی کا یقین دلایا، مگر پھر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ مصنوعی سانس کی مشین پر منتقل ہوگئے اور کئی دن زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ان کے علاج کے لیے ان کے نجی ہسپتال، نشتر یونیورسٹی ،ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نے اہم بور ڈ تشکیل دیا۔

اس میں وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل سمیت، ڈاکٹر سلمان ایاز، پروفیسر بلقیس شبیر، پروفیسر ڈاکٹر الطاف رانا اور لاہور، ملتان سے اینستھیزیا اور آئی سی یو کے ماہر ڈاکٹروں کی کاوشیں شامل تھیں۔ ایسے میں لاہور سے خاص پھیپھڑوں کو آکسیجن فراہم کرنے والی ایکمو مشین بھی منگوائی گئی، مگر پاشا صاحب کے نصیب میں شہادت لکھی تھی اور کئی آنکھیں اشکبار کرکے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

راقم القلم نے ایک نجی چینل پر پاشا صاحب کی بہن پروفیسر بلقیس شبیر کی موجودگی میں وائس چانسلر کے ای ایم یو پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل اور وائس چانسلر یو ایچ ایس پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے اپیل کی کہ پاشا صاحب کو اعلی ایوارڈ سے نواز جائے۔ان اساتذہ کی کوششیں رنگ لائیں اور بالآخر چیف منسٹر پنجاب بزدار صاحب نے ان کے لیے اعلی سول اعزاز کا اعلان کردیا۔

ہمارے مطالبات کی خواہش میں نشتر کے ذیلی منصوبے نشتر ٹو کا نام مصطفی کمال پاشا شہید ہسپتال بھی شامل تھا،جس پر یہ قلم آواز اٹھاتا رہے گا۔ اسی میڈیکل یونیورسٹی نے چند دن پہلے ڈاکٹر غزالہ شاہین کو کھویا،ان کی بیٹی نویرا ،میری جونئیر تھی۔کئی سال بعد نویرا نے مجھے فیس بک پر میسج کیا،اس کے الفاظ اس کی تکلیف بتانے کے لیے کافی تھے۔نویرا نے مجھ سے سی ایم پنجاب کو براہ راست اس خراج ِ تحسین پر شکریہ کرنے کی اپیل کی ،جو ان کی والدہ کو شہادت پر پیش کی گئی۔

کورونا وائر س کا اس ملک سے Fade-Out ہوجانا چلے جانا ،یقینا ایک اچھی خبر ہے، مگر یہ خبر اپنے اندر پانچ ہزار گھروں سے جنازے لیے ایک تلخ ماضی ہے۔ یہ جنازے جن گھروں سے اٹھے،جن کے پیارے ا س وباء میں اس دنیا سے چلے گئے ،ان کا درد صرف وہی جانتے ہیں ۔ ہم لاکھ کورونا وائرس پر فسانے لکھ لیں،اس کے خوف کی چادر اوڑھ لیں،اس کی تلخیوں اور تباہ کاریوں پر کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار کرلیں، مگر ہم کبھی ان دلوں کا درد نہیں پڑھ سکتے ،جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس جنگ میں ان دیکھے دشمن کے ہاتھ کھویا ہے۔

دوسری جنگ ِ عظیم کے اختتام پر جب مفتوح روس اور ہارے ہوئے جرمن فوجی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے اور ایک روسی فوجی کی برلن میں ایک جلتے گھر میں چھپے جرمن فوجی پر نظر پڑی،وہ زخمی حالت میں تھا،درد سے کراہ رہا تھا،ہاتھ میں سنائپر گن تھی اور بغیر گولی والی بندوق سے وہ نشانے باندھے تھا۔ روسی فوجی فاتح تھا،وہ اس گھر میں اپنی بھری بندوق سے اس فوجی کو مارنے کے لیے داخل ہوا۔

اس نے جلتا گھر دیکھا، زخمی ،بھوکا ،پیاسا فوجی دیکھا اور اس کی خالی بندوق دیکھی۔ جرمن فوجی پوزیشن سنبھالے تھا۔ روسی فوجی نے اس کا کندھا تھپکایا اور کہا کہ تم جنگ ہار گئے ہو، ہٹلر نے خودکشی کرلی ہے ،اپنی جگہ چھوڑو اور اپنی جان بچاؤ۔اس پر جرمن فوجی نے زخمی چہرے سے روسی فوجی کی طرف دیکھا اور وہ تاریخی جملہ بولا جو آج میں کورونا سے شہید ہوئے ہر جنگجو کے نام کرتا ہوں۔

جرمن فوجی کہنے لگا، مانا کہ ہم جنگ ہار گئے ہیں، مگر مجھے فخر ہے کہ میں آخری دم تک لڑ رہا ہوں، تم چاہے مجھے دشمن سمجھ کر ختم کردو،کیونکہ اگر میری بندوق میں گولی ہوتی تو میں تمہیں کب کا ختم کرچکا ہوتا، میں ہار کر بھی حالت ِ جنگ میں ہوں۔میری یہ حالت میری اصل فتح ہے۔ ہماری اکانومی تباہ ہوگئی ،لاکھوں بے روزگار ہوگئے، مگر ہم نے کورونا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ہم پاکستانی اپنی پڑوسی ملک کی پانچ گنا طاقت سے زیادہ بہادر نکلے،ہم اس جنگ میں ہارے یا جیتے اس کا فیصلہ وقت کرے گا،مگر ہم نے اس جنگ میں شہید دیے اور جو بچ گئے ،وہ آج بھی جرمن فوجی کی طرح زخمی حالت میں اپنے مورچوں پر بندوق سنبھالے ،ان دیکھ دشمن سے مقابلے میں ہیں۔


کس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :