
گوادر،نون مینار،گمشدہ قومی ہیروز
بدھ 20 جنوری 2021

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
(جاری ہے)
پاک چین اقتصادی راہداری((CPECایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریبا 2442 کلومیٹر طویل ہے۔ پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی ضلع گوادرکی گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے ذریعے چین کے ساتھ ساتھ روس اوروسط ایشیائی ریاستوں کوباقی دنیاسے ملارہی ہے جس سے ان ممالک کیلئے باقی دنیاسے تجارت کرنے کے دروازے کھل چکے ہیں اس سے قبل ان ممالک کیلئے ساراسال تجارت ناممکن تھی کیونکہ وسط ایشاء کے بیشترممالک ایسے ہیں جن کوکہیں سے سمندرنہیں لگتایاجن کے پاس سمندرہیں وہ سال کا بیشترحصہ شدیدسردموسم کی وجہ سے جم جاتے ہیں،گوادرپورٹ گرم اورگہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے جوساراسال کھلی رہتی ہے جوکہ اس وقت دنیاکیلئے گیٹ وے کاکام کررہی ہے تو یہ 1581 ء کی بات ہے جب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر پر پرتگالیوں نے قبضہ کیا تھا۔ سترہویں صدی کے اوائل میں اس شہر پر گچکی بلوچوں کی حکومت قائم ہوئی۔ 1736 ء میں انھوں نے گوادر کو ایران کے نادر شاہ کے حوالے کر دیا۔ تین سال بعد پھر گچکی قبیلہ برسرِ اقتدار آ گیا مگر 1778 ء میں خان آف قلات نے گوادر پر قبضہ کر لیا۔ 1784 ء میں مسقط کے شہزادے سعد سلطان نے اپنے باپ سے بغاوت کر کے جب مکران میں پناہ حاصل کی تو خان آف قلات ناصر خان اول نے ان کی بڑی خاطر مدارات کی اور ان کی مہمانی کے طور پر گوادر کا علاقہ ان کے حوالے کر دیا۔ 1792 ء میں سعد سلطان خان آف قلات کی مدد سے مسقط اور عمان کے سلطان بن گئے لیکن انھوں نے گوادر کو اپنی عملداری میں شامل رکھا حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کے محتاج نہ تھے۔انگریزوں نے جب قلات پر قبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی۔ 1947 ء میں قیام پاکستان کے وقت بھی گوادر سلطنت عمان کا حصہ تھا۔توبات ہورہی تھی قومی ہیروزکی تومحترم قارئین کرام آج تک ہمارے پالیسی سازوں نے قوم کے مستقبل کے معماروں کویہ نہیں بتایاکہ گوادرکیسے پاکستان میں شامل ہوا اور گوادرکوپاکستان کاحصہ بنانے والے عظیم محسن کون تھے؟
پاکستان نے اپنے قیام کے فوراََ بعد گوادر کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔ 1949 ء میں اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوئے، ادھر شہنشاہ ایران گوادر کو ایران میں شامل کرنے اور اسے چاہ بہار کی بندرگاہ کے ساتھ ملا کر توسیع دینے کے خواہش مند تھے ان کی اس خواہش کی پشت پناہی امریکی سی آئی اے کر رہی تھی اوردوسری طرف جواہرلال نہروبھی تاک میں بیٹھا ہواتھا۔ 1956 ء میں جب ملک فیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا اور اسے ہر صورت میں حل کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے یہ مشن اپنی بیگم وقار النسا نون کو سونپ دیا جنھوں نے انتہائی محنت کے ساتھ یہ مسئلہ حکومت برطانیہ کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے گوادر پر پاکستانی استحقاق کے حوالے سے برطانوی حکومت اور پارلیمانی حلقوں میں زبردست مہم چلائی۔اس سلسلے میں انھوں نے چرچل سے بھی ملاقات کی اور برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز یعنی ایوانِ بالا میں بھی پاکستان کی بھرپور لابنگ کی اور یہ مئوقف پیش کیا کہ گوادر قلات خاندان کی جاگیر تھا جو اب پاکستان میں شامل ہے لہذا قلات کی اس جاگیر کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیے۔وقار النسا ء نون نے یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم، دلائل اور گفت و شنید کی مدد سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم ہیرالڈ میکملن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ میڈم وقار النسا نون نے گوادر کو پاکستان کے حوالے کرنے کے لئے برطانوی حکومت کو راضی کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سلطان عمان نے پورے دو سال کی سخت کوششوں کے بعد7 ستمبر 1958 ء کو گوادر کا کنٹرول اسلامی جمہوریہ پاکستان کو منتقل کردیا ، پاکستان نے اس وقت8.4 ملین ڈالرکی رقم اداکی جو زیادہ ترپرنس کریم آغا خان نے دی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے7ستمبرکو ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرکے گوادرکی پاکستان میں شمولیت کااعلان کیاتھا۔ آٹھ ستمبر 1958 کو گوادر کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسی روز آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے گوادر اور اس کے نواحی علاقوں کا نظم و نسق سنبھالا اور پاکستان کو دو ہزار چار سو مربع میل کا رقبہ واپس مل گیا۔ صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزانے 7 اکتوبر 1958 کو اسمبلیاں توڑدیں اورمحسن پاکستان ملک فیروزخان نون کی حکومت کاخاتمہ کردیا۔
ہم ایسی بدقسمت قوم ہیں جنہیں مغربی مفکرودانشور، مادرپدرآزادمعاشرے کے ہیروزکے بارے میں پڑھایاجاتاہے لیکن ہمیں اپنے ہیروز کے بارے میں بتاناشاید ہمارے پالیسی میکریاارباب اختیاراپنی شان کیخلاف سمجھتے ہیں ،ہمارے نصاب تعلیم میں کہیں بھی کوئی معلوماتی اورپاکستان کی تاریخ پر مبنی کوئی ایسامضمون شامل نہیں جس میں بتایاگیاہوکہ گوادرکوحاصل کرنے کیلئے ملک فیروزخان نون اورآسٹریا سے تعلق رکھنے والی ان کی بیوی میڈم وقارالنساء نون نے کیاخدمات سرانجام دیں اورانہوں نے کیسے گوادرکامقدمہ لڑا اورگوادرحاصل کرنے کیلئے پرنس کریم آغاخان کی کیاخدمات ہیں؟ انٹرنیٹ پرمعلومات کی تلاش میں مختلف سائیٹس پرسرچنگ کے دوران ایک ویب سائٹ عقاب پاکستان تھنک ٹینک کاایک صفحہ نگاہ سے گذراجہاں ایک لیٹرپوسٹ کیاگیاتھاجوکہ جناب محترم کرنل (ر)ریاض جعفری صاحب نے لکھاتھاجس کاعنوان تھا "نون مینارگوادر"جو انہوں 17 نومبر2017ء کولکھاتھاجس میں انہوں نے لکھاتھاکہ جس عظیم شخصیت نے دن رات ایک کرکے گوادرکوپاکستان کاحصہ بنایاان کے شایان شان اورانکی خدمات کے اعتراف میں ایک بلندوبالامیناربنایاجائے جس پر خوبصورت لائٹیں لگی ہوں اورجودورسے کھلے سمندرمیں آنے والے جہازوں کومعلوم ہوکہ سامنے گوادرکانون میناردکھائی دے رہاہے۔محترم کرنل (ر)ریاض جعفری صاحب کی خوبصورت تجویز "نون مینار"بہت ہی بہترین ہے جس کی پاکستانی قوم بھرپورحمایت کرے گی ،اس مینارکے بننے سے ایک توتاریخ کے گوشوں میں گم ہمارے قومی ہیروزکے کارہائے نمایاہماری آنے والی نسلوں تک باآسانی منتقل ہوتے رہیں گے دوسرادنیا میں ہماراوقاربھی بلندہوگاکہ پاکستانی قوم اپنے قومی ہیروزکوفراموش کرنے والی قوم نہیں ہے اورساتھ ہی ہمارے ملک پاکستان کیلئے نمایاں خدمات سرانجام دینے والی عظیم گمشدہ ہستیاں جوکہ ہمارے قومی ہیروہیں ان کانام رہتی دنیاتک ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہوجائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے کالمز
-
پہلے حجاب پھرکتاب
منگل 15 فروری 2022
-
ایمانداروزیراعظم
پیر 31 جنوری 2022
-
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
بدھ 26 جنوری 2022
-
جنوبی پنجاب صوبہ اورپی ٹی آئی کاڈرامہ
پیر 24 جنوری 2022
-
پاکستان کے دشمن کون۔؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
پاکستان کے بادشاہ سلامت
پیر 10 جنوری 2022
-
بھارت میں خانہ جنگی
منگل 4 جنوری 2022
-
مالدیپ میں انڈیاآؤٹ تحریک
بدھ 29 دسمبر 2021
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.