اسلام میں صبر کی اہمیت

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

‏صبر بظاہر تین حرف لفظ کا مجموعہ ہے مگر اپنے اندر ہمت، حوصلہ، برداشت، عمل، خیر، نرمی اور سکون کی پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ انسانی زندگی مقامِ آزمائش ہے جہاں ہر شخص کو طرح طرح کی مشکلات و مصاٸب کے ذریعے سے آزمایا جاتا ہے۔
صبر کا مطلب ہے کہ برداشت سے کام لینا‘خود کو کسی بات سے روکنا کے ہیں۔اور صبر کا مفہوم یہی ہے کہ کبھی کسی مسلمان پر مشکل و مصائب  کا وقت آجائے جس میں اسے دقت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے تو ایسے حالات میں اسے صبر اور برداشت  سے کام لینا چاہئے اور مایوسی اور ناشکری کا راستہ نہیں اپنانا چاہئے ۔

قرآن پاک میں صبرکی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ نے متعدد مقامات پر صبر کے اجر و ثواب کا بیان بھی فرمایا  قرآن مجید میں صبر کرنے  کا ذکر ستر مرتبہ آیا ہے، ہم اگر دنیاوی اعتبار سے  میں بھی دیکھیں تو کسی منزل یا مقصد کو پانے کے لئے انسان کو ہر صورت صبر کرنا پڑتا ہے
قران پاک میں  ارشاد  باری تعالی ہے
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔

(جاری ہے)

(القران ) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
صبر کرنے والے رب کریم عَزَّوَجَلَّکی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔ (القران )
مزید فرمایا کہ اللہ ﷻصبر کرنے والوں کے ساتھ ہے( القران )ایک اور جگہ فرمایا صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔ (القران ) ارشاد باری تعالی ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔( القران )
خاتم النبین ﷺ ؐکی سیرت مبارکہ بھی اسی امر کی عکاس ہے
طاٸف میں اوباش لڑکوں نے آپ ﷺپرپھتر برساٸے ۔

شعیب  ابی طالب کے گھر کا تین  سال تک محاصرہ کیا گیا۔  ابولہب معلون آپﷺ کو برا بھلا کہتا۔ اس کی اہلیہ ام جمیل آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھاتی اور کوڑا پھینکتی تب بھی آپؐ لوگوں کے حق میں دعائیں کرتے اور صبراختیار کرتے تھے
 حدیث نبویﷺ ہے کہ صبر کرنے والوں کی جزاء دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے (حدیث)ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔

(حدیث)
مزید فرمایا کہ صبر آدھا ایمان ہے۔ (حدیث)
ایک موقع پر صبر کے انعام کے متعلق ارشاد فرمایا کہ صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(حدیث)
مزید فرمایا کہ صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں صبر ہر بھلائی کی کنجی ہے(حدیث)
سب سے زیادہ تکالیف اللہ ﷻ کے پیغمبروں اہل بیتؒ  اور   صحابہ کرام ؓ  نے برداشت کیں اور ان پرصبرکیا، جس طرح حضرت یعقوب ؒ کو ان کے بیٹے حضرت یوسف کی  رحلت کی خبر سنائی گئی تو انہوں نے صبرکیا۔

حضرت عائشہؓ کو ایک سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تو عاٸشہؓ نے صبر کیا ،اسی طرح حضرت حارثؓ کو تپتے انگاروں پر لٹایا گیا، انہیں نے صبر کا دامن تھامیں  رکھا ۔ امام حسین ؓ  اور انکے ساتھوں پر پانی بند کردیا اور ان کے ساتھیوں کو بےدری سے شہید کیاگیا ، حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کرگھسیٹا گیا اور گرم ریت پر لٹایا اور بھاری پتھر انکے سینے میں رکھا انہوں نے صبر کرنا نہیں چھوڑا ۔


حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو نظر آتش کیا گیا انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچے کو اللہ کے حکم پر بیابان میں چھوڑ دیا انہوں نے صبر کو تھامی رکھا اور حضرت صہیب رومیؓ کو مکہ سے ہجرت کے موقع پر مال و دولت سے ہاتھ دھونا پڑا، پھر بھی انہوں نے صبر کیا حضرت ابو سلمہؓ سے ان کے زوجہ بچے چھین لیے گئے، ام سلمہؓ سے بچے اور خاوند چھین لیا گیا۔ حضرت خبیبؓ کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سولی پر لٹکا دیاگیا، ان تمام ہستیوں  نے مصائب کے وقت صبر سے کام لیا اور مصائب کے اوقات شکر کا کلمہ ادا کیا۔


صبر کی عادت سے ہی انسانوں کے اندر تسلیم و رضا کی صفت پختہ ہوتی ہے۔  اور اس سلسلے میں خاتم النیینﷺ،  انبیا ٕ علیہ السلام، اہل بیت علیہ السم السلام اور صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں، اگر مصائب، تکالیف، پریشانیاں اور غم ہم پر غالب ہو تو پھر بھی ہمارا درماں صبر ہوناچاہیے اور ہر حال میں اللہ  سبحانہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں یہی ہمارے زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمی  صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :