کیبل کلچر کے منفی اثرات

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

 آج الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اسی کی بدولت ساری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے ایک لمحے میں دنیاکے کیسی بھی کونے میں ہونےوالا کوٸی واقعہ ساری دنیا میں خبر کی صورت میں فورا نشر ہوجاتا ہے اس صورت حال کے جہاں بہت فاٸدے ہیں وہاں اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی آج ٹی وی چینلز کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی ہے اب بین الاقوامی سطح پر ہماری ایک پہچان ہے اب ہمارے ملک پاکستان کی ہر خبر دنیا تک پہنچ رہی ہے اطلاعات کی ایک دوڑ ہے جو ان چینلز کے درمیان لگی ہوٸی ہے کہ کون پہلے خبر نشر کرتا ہے ۔

۔ اتنے زیادہ چینلز کھل جانے کی بدولت اب تقریبا ہر انسان کی آواز اس کے مساٸل ،اس کی پکار ارباب اختيار تک پہنچ رہی ہے
اب  یہ ایک الگ مسٸلہ ہے کہ ارباب اختيار اس آواز کو سنتے بھی ہیں یا نہیں بہرحال یہ صورت حال مسلم ہے اور اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ سب کو فائدہ ہورہا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں گارڈ سے لے کر پروڈیوسر تک کے تمام فن کاروں کو اس فائدہ ہوا ہے ۔

آج ادیب اور شاعر کی جو عزت اور معاشرے میں مقام ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ مزید برآں انکو معاشی فاٸدہ بھی ہورہا ہے  کیونکہ  چینلز میں ایک تنوّع ہے طرح طرح کے چینلز کھلنے کی وجہ سے ہر شعبے کے انسان کے لیے رہنماٸی موجود ہے  ۔ سپورٹس اور گیمز ، کارٹون اور کوکنگ چینلز ،ہیلتھ چینلز اور سب سے بڑھ کر نیوز چینلز اپنے اپنے داٸرہ کار میں ہمیں فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔

ان تمام سہوليات کے تناظر میں اگر دیکھا جاٸے تو انفارميشن ٹیکنالوجی میں بہت وسعت آٸی ہےمگر افسوس کہ تصویر کا دوسرا رُخ اس کے برعکس بہت بھیانک ہے۔موباٸل فونز، انٹرنیٹ، کیبل اور الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لےکر مسلمانوں کے اخلاق اور روایات کو اُس دھانے پر کھڑا کیاجائے جس پر اہل مغرب خود کھڑے ہیں بین الاقوامی ثقافتی یلغار نے ہماری نٸی نسل کو تباہ کرکے رکھ  دیا ہے
ہمارے معاشرے میں ٹی وی چینلز اور کیبل کلچر ایک وبا کی صورت پھیل گیا ہے، خاص کر کیبل ٹی وی نے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے مذہب، ثقافت، اقدار و روایات، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سے بیگانہ کردیا ہے۔

کیبل کلچر یعنی ٹی وی چینل کی بھر مار اور اس کا ہماری تہذیب و ثقافت کو بری طرح متاثر کررہا ہے ساٸنس کی ترقی میں مواصلات کے نظام میں بہت تیزی سے ترقی ہوٸی ہے لیکن یہی ترقی ایک طرف تو انسان کو بہت آگے تک لے جارہی ہے تو دوسری طرف انسانیت کے لیے اقدار کو پامال کررہی ہے ۔۔
کیبل ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دیکھے جارہے ہیں، اور ان چینلز پر ایسے بہت سے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔

ہمارا ملک پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی مملکت ہے۔ ہماری اپنی تہذیب، ثقافت، رسم و رواج اور عقائد ہیں۔ آج سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کے ذریعے مغربی ممالک اپنی ثقافت اور روایات کا پرچار پوری دنیا میں کررہے ہیں۔آج کے دورمیں ٹی وی ہرگھر میں موجودہے۔ہرکوئی ٹی وی کو تفریح کا ذریعہ سمجھتا ہے خاص طور پر سیٹلائٹ چینلز اور کیبل توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

گھرکے بڑے اپنے کاموں سے فارغ ہوکر ٹی وی کی طرف رخ کرتے ہیں اور پسندیدہ پروگرام دیکھنے کے بعد پھر سے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کیبل نشریات کی وجہ سے طلبہ باخبر اور باشعور ہوگئے ہیں۔ ایک کونے میں نشر ہونے والی خبر دوسرے کونے میں بآسانی سنی اور دیکھی جاسکتی ہے۔کیبل مختلف مقاصد کی تکمیل کرتا ہے، بچے ٹی وی پر کیبل پروگرام دیکھنے کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں۔

ٹیلی ویژن پر دوسرے ممالک کے اشتہارات، خبریں، کھیلوں سے متعلق معلومات اور کرنٹ افیئرز سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
ہمارا بچہ جو انداز تکلم سنتا ہے اور جسطرح کا پہناوا دیکھتا ہے اسی طرح کے انداز اپنا لیتا ہے جو کسی طرح سے ہمارے مذہب ،ہماری تہذیب و ثقافت سے میل نہیں کھاتے۔۔ اس صورتحال میں فحاشی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا ڈر لگتا ہے کہ فحاشی کا یہ عفریت بہت جلد ہماری تہذیب کو نگل جاٸے گا ۔

نٸی نسل بے راہروی کاشکار ہوکر مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے اس کے نقصانات کو ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ الیکڑانک میڈیا  سے تعلق رکھنے والے اکثر بلیک ملینگ سے کام لیتے ہیں۔۔
حقيقت کو چھپانا ،مسخ کرکے پیش کرنا یا اس کا رنگ ہی بدل دینا ،چینلز کی اپنی اپنی پاليسياں کے مطابق ہوتا ہے  عوام نساں تک صحیح خبر پہنچانا یہ مقصد کم کم ہی دیکھا گیا ہے ۔

  مزید یہ کہ مذاکرات کے پرواگرام میں جس طرح سے ایک دوسرے پر سیاسی  پارٹیوں پر اور پھر حکومت پر کیچڑا اچھالی جاتی ہے وہ قابل مذمت ہے  ” بول کہ لب آزاد ہیں تیرے “
کیبل کلچر اور ٹی وی چینلز  ہماری ثقافت کو تباہ کررہی ہے اور لوگوں کو اسلامی طرز زندگی سے دور لے جارہی ہے۔ جو لوگ کیبل اور چینلز نہیں دیکھتے اور اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں اُنہیں پرانے زمانے کا سمجھا جاتا ہے اور اُن کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے۔

کیبل اور چینلز  بے ہودہ اور تشدد سے بھری ہوئی فلمیں دیکھا رہی ہے۔ یہاں تک کہ یہ فلمیں بڑوں کے لیے بھی دیکھنا مناسب نہیں ۔ تیسری بات یہ کہ کیبل اور ٹی وی چینلز پر بہت زیادہ موسیقی کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ بے ہودہ ڈانس اب گانوں کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ سٹیج ڈرامے دیکھنے سے ہمارے بچے بُری زبان سیکھ رہے ہیں کیبل اور ٹی وی چینلز  پر چلنے والے ان پروگراموں کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور پھر خودان کی نقل کرتے ہیں جو ان کے ذہنی و جسمانی طور پر منفی اثرات پیدا کرتے ہیں ۔

کیبل اور ٹی وی چینل  پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں لوگوں کو صرف منفی جذبات و احساسات دکھائے جاتے ہیں، مثلاً : دھوکہ، قتل، جھوٹ، غیبت ، بدتمیزی  حادثہ اور بے وفائی وغیرہ۔ یہ ڈرامے دیکھ کر وہ یہ یقین کر لیتے ہیں کہ دُنیا میں صرف یہ بُرے جذبات ہی ہوتے ہیں اور نیک لوگوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا، چنانچہ اُنہیں بھی ایسا ہی بن جانا چاہیے۔

اور یہی سب کچھ دیکھ کر سیکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں فحاشی کا بول بالا ہے اگربچوں کی نگرانی نہ کی جائے تووہ اپنا زیادہ وقت ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ضائع کر تے بچے ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن اس مستقبل کی تعمیر و تشکیل پر توجہ نہیں دیتے توکل وہ بہترمستقبل کی مثال کیسے بن سکتے ہیں۔
اسلام نے شرم و حیائ کو دین کا حصہ قرار دیا ہے لیکن میڈیا کے ذریعہ سیکولر مائنڈڈ طاقتیں مغربی تہذیب و کلچر کو عام کرنے میں پورے وسائل اور طاقت لگا رہی ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اسی ذریعے سے ہی وہ جنگ کیے بغیر مسلمانوں کو مات دے سکتی ہیںہماری نوجوانوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال کریں اور اس بڑھتی ہوئی برائی کو ہر طریقہ سے روکنے کی کوشش کریںکی جو ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کر رہی ہے اور معاشرتی و اخلاقی انحطاط کا باعث بن رہی ہےاس لیے ضرورت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی جائے اور کیبل کلچر کے منفی اثرات سے بچایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :