
پولیس۔۔ کب بدلے گی؟
جمعہ 8 جنوری 2021

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ ساہیوال کی افسوسناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد اسی طرح شور اٹھتا ہے۔اسی طرح چیخ پکار ہوتی ہے۔ اسی طرح مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح زوردار بیانات آتے ہیں۔اسی طرح کمیٹیاں بنتی ہیں۔ اسی طرح وقتی طور پر اہل کاروں کو حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر چند دنوں ، یا چند ہفتوں بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ جس پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کے دعوے ہوتے ہیں وہ کلچر جوں کا توں موجود رہتا ہے۔ اصلاحات کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔ پولیس کے مزاج میں رعونت کا خناس اسی طرح سمایا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی اسامہ اسی طرح نشانہ بنتا رہتا ہے۔ کسی نہ کسی گھر میں صف ماتم اسی طرح بچھی رہتی ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے، پولیس کا چلن بھی یہی ہے اور پولیس کی اصلاحات کے دعوے بھی یہی ہیں۔ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر شہری کیلئے پولیس کی وردی خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا اہلکار خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا تھانہ خوف کی علامت ہے۔ پولیس کی گاڑی خوف کی علامت ہے۔ پولیس کا معروف " ڈالا" خوف کی علامت ہے۔ ایسا آج تک نہیں ہوا، برسوں سے ہو رہا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ مختلف حکومتوں نے اصلاح کی کوشش نہیں کی۔ ایسی بہت کوششیں ہوئیں۔ کئی کمشن بنے۔ پولیس آرڈی نینس بھی جاری ہوئے۔ مشرف دورمیں کچھ تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی آئیں۔ لیکن ان ساری کوششوں کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ کیا پولیس کے رویے میں تبدیلی آئی؟ کیا وہ اب پہلے سے کہیں ذیادہ عوام دوست ہو گئی ہے؟کیا اب وہ چالان کیلئے گاڑی روکتے ہوئے " اوئے" نہیں کہتی؟ کیا تھانے ہمدردانہ اور دوستانہ کلچر کے نمونے بن گئے ہیں؟ کیا گالی گلوچ اور مار پیٹ اب پرانی باتیں ہو گئی ہیں؟ کیا ایف۔آئی۔آر درج کرانا اب آسان ہو گیا ہے؟ ایسی ایک بہت طویل چیک لسٹ بنائی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یقینا حوصلہ شکن ہی نکلے گا۔
پولیس اصلاحات کیلئے بنائے جانے والے کمشن نہ جانے پولیس کے اس رویے کے کیا اسباب بتاتے اور پھر اصلاح کیلئے کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں ۔ لیکن ایک عام شہری کے ذہن سے سوچا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کی بھرتی، تربیت، کارکردگی کے جائزے اور احتساب کا کوئی موثر نظام نہیں۔ جب پولیس کی طرف سے کوئی ناروا اقدام ہوتا ہے تو نعرے ضرور لگتے ہیں لیکن عملا کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ اسلام آباد تو چھوٹی سی جگہ ہے۔ پورے شہر میں سیف سٹی نظام کے کیمرے موجود ہیں۔ ایک زبردست کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کام کر رہا ہے لیکن آئے روز جرائم میں اضافے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ محاسبے کا نہ ہونا ہے۔ اسی اسلام آباد میں صحافی اغواء ہوئے۔ کچھ پتہ نہ چلا۔ مطیع اللہ جان کی بات تو ابھی کل کا واقعہ ہے۔ اغواء کرنے والے صاف دیکھے جا سکتے ہیں کہ وہ پولیس ہی کی وردیوں میں ہیں۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔ کوئی اڑھائی سال پہلے معروف صحافی اور کالم نگار عرفان صدیقی کو ایک دہشت گرد کی طرح گھر سے اٹھایا گیا۔ ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا گیا۔ اڈیالہ جیل میں ڈالا گیا۔ اس واقعے کی وزیر اعظم، چیف جسٹس، وزیر داخلہ، قومی اسمبلی کے سپیکر اور سرکاری ترجمانوں کی طرف سے یکساں مذمت کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔ نہ کوئی کمیٹی بنی۔ نہ کوئی تحقیقات ہوئیں۔ نہ کسی کا محاسبہ کیا گیا۔ نہ کسی پولیس اہلکار سے پوچھا گیا کہ تم نے کرایہ نامہ کے کیس پر یہ سب کچھ کیو ں کیا؟
اسی سے پولیس کو من مانی کرنے اور اپنی حدود سے تجاوز کونے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اسی سے رعونت پیدا ہوتی ہے جو پولیس اہلکار کو دہشت گرد بنا دیتی ہے اور وہ کسی اسامہ کا سینہ چھلنی کر دیتا ہے۔ ایک اور پرانا مرض یہ ہے کہ سیاست نے پولیس کو کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ سیاسی مداخلت پولیس کے محکمے میں ہوتی ہے۔ فلاں کو فلاں عہدے پر لگا دو۔ فلاں کا فلاں شہر میں تبادلہ کر دو۔ فلاں کو فلاں تھانے میں بٹھا دو۔ فلاں کی ترقی کر دو۔ اس سیاست بازی نے پولیس کو اکھاڑہ بنا کے رکھ دیا ہے۔
پولیس میں بہت اچھے، دیانتدار، محنتی اور فرض شناس اہلکار بھی ہیں۔ لیکن وہ کلچر پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب پولیس کا فرض واقعی عام آدمی کی مدد ہو گا اور پولیس خود کو اسی فرض پر مرکوز رکھے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.