پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کونسا ؟

اتوار 26 اپریل 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

پاکستان کو اسکے قیام سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے--مگر 73 سال گذرنے کے باوجود بھی ابھی تک ہم ایک ترقی یافتہ ملک نہیں کہلا سکے
مسائل تو بے شمار ہیں ہر کوئی اپنی اپنی رائے بیان کرتا ہے تاہم اگر ہم صرف چند بڑے اور بنیادی مسائل پر قابو پا لیں تو80 سے 90 فیصد مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو سکتے ہیں اور اسطرح چند سالوں میں پاکستان ترقی یافتہ ترین ملک بن سکتا ہے
ان بڑے اور بنیادی مسائل میں معاشرے میں تعلیم-صحت انصاف بے روزگاری وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں
اب ان بڑے اور بنیادی مسائل کو حل کرنا یا قابو کرنا یہ ہماری حکومت کی اول ترجیح ہونا چاہیئے مگر ان بڑے مسائل کو حل کرنے کا آغاز کیسے ہو ۔

۔۔ اسکا جواب یہ ہے کہ اگر ایک بنیادی مسئلہ پر قابو پا لیں تو 60 فیصد سے زائد یعنی آدھے سے بھی زائد ہمارے بڑے مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہوجائیں گے
اور یہ مسئلہ بھی ایسا ہے جسے ہر پاکستانی حتی کہ ہر مذہب ہر مسلک ہر نظریے کا آدمی بھی اس سے اتفاق کیے بغیر نہیں رھ سکتا
اب وہ مسئلہ جسے مسئلہ ہی نہیں بلکہ قومی مرض کہنا چاہیئے وہ جھوٹ کا مرض ہے جو ہمارے معاشرے کا سخت ناسور ہے
جھوٹ ہی ہے جس سے تمام خرابیاں اور برائیاں معاشرے میں پھوٹ پڑتی ہیں
اگر ہم حکومت بھی اور عوام بھی جھوٹ چھوڑ کر سچائی اپنا لیں تو یہ سچائی وہ بنیادی خلق ہے جس کو اپنا کر ہمارے اکثر مسائل حل ہو سکتے ہیں
اگر سیاستدان جھوٹ چھوڑ کر سچائی اپنا لیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کوئی سیاستدان دھوکہ بازی یا کرپشن نہیں کر سکے گا--اسے علم ہوگا کہ سچ بولا تو  اسطرح عوام میں میری دھوکا بازی کرپشن اور مفاد پرستی ظاہر ہوجائے گی اسکا خیال آتے ہی وہ ان برائیوں کو ترک کر دے گا ۔

(جاری ہے)

۔اب صرف سچ بولنے کی عادت سے (حکومتی لیول پر کرپشن بدعنوانیوں اور ذاتی مفاد پرستی) جیسی خرابیاں کا خاتمہ ہوگا --اسطرح قوم کو سچے کھرے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینے والے  سیاستدان میسر آسکیں گے
اگر دینی علماء بھی سچ ہی بیان کریں سچ ہی پھیلائیں--تو اکثر نفرتیں دم توڑ جائیں گی اور فرقہ واریت کا زہر ختم ہوگا۔۔ہوتا یہ ہے کہ بعض علماء کی طرف سے معمولی بات کو بہت بڑھا کر یا بہت بڑی بات کو بہت معمولی بیان کرنے کے لیے سچ کو چھپایا جاتا ہے یا آدھا سچ ہی دکھایا جاتا ہے۔

۔یا کسی لفظ کی ایسی تشریح کی جاتی ہے جو بات کچھ اور ہوتی ہے اور بیان کچھ اور کیا جاتا ہے اصل حقیقت واضح نہیں ہوتی۔۔الغرض اگر دینی علماء رہنماء جھوٹ کو ہرلحاظ سے ترک کر دیں تو معاشرے کی بہت بڑی اصلاح ہو سکتی ہے
اگر عدالتوں میں جج اور وکلا قسم کھالیں کہ وہ نہ جھوٹ کو برداشت کریں گے نہ گول مول کر کے کیس کو لمبا کریں گے آدھا سچ نہیں سو فیصد سچ ہی سنیں گے اور سو فیصد سچ ہی بولیں گے تو کوئی ظالم کوئی چور کوئی مجرم بھی سزا سے بچ کے نہیں نکل سکے گا۔

۔۔ یہی کام پولیس اور ادارے بھی کریں کہ لگی لپٹی باتیں اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیں گے اور آدھا نہیں مکمل سچ ہی سنیں اور بولیں گے تو رشوت اور اقرباء پروری اور دوسری اکثر برائیاں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی-امیر اور غریب کو ایک نظر سے دیکھنے سے ظلم وزیادتیوں کا خاتمہ ہوگا
اگر میڈیا والے بھی ارادہ کر لیں کہ خبریں گول مول کر کے یا گھما پھرا کر یا مرچ مصالحے لگا کر نہیں شائع کریں یا دکھائیں گے۔

۔کسی حقیقت کو آدھا نہیں بلکہ مکمل بتائیں گے۔۔۔اور بموجب حدیث نبوی سنی سنائی بات کو بلاتحقیق آگے نہیں پھیلائیں گے--تو اکثر ظلم اور زیادتیاں اور بلیک میلنگ ختم ہوجائے گی اور   میرٹ پر کام ہونے لگیں گے
اب تجارت کی بات کر لیں سچے تاجر کی تو حدیث نبوی میں جی بھر کی تعریف کی گئی ہے
اگر تاجر سچے ہوجائیں گے اور پراڈکٹ پر جو کوالٹی لکھی ہوگی وہی کوالٹی اندر بھی ہوگی-تاجر سچ ہی نہیں کھرا سچ بولیں گے  تو ظاہر ہے ملاوٹ یا دھوکہ بازیاں بھی ختم ہو جائیں گی پاکستانی مصنوعات کی کوالٹی بہتر اور اس پر اعتماد بڑھنے لگے گا پاکستانی اپنے ملک کی مصنوعات پر اعتماد کرنے لگیں گے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی پاکستانی مارکیٹ اور مصنوعات کا بول بالا ہو جائے گا بزنس ترقی پر ترقی کرتا جائے گا
اگر والدین اہنے بچوں کے سامنے ہمیشہ سچ بولیں گے تو بچے ان سے سیکھیں گے
بچے جھوٹ سیکھتے ہی تب ہیں جب وہ کہیں جھوٹ بولتا دیکھتے ہیں اگر ہر طرف سچ ہوگا اور جھوٹ پر سخت سرزنش ہوگی تو گھر بھی امن کے گہوارے بن جائیں گے --جھوٹ سے ہی بدامنیاں پیدا ہوتی ہیں اکثر میاں بیویوں یا ساس بہوؤں کے جھگڑے میں بھی یہی عنصر شامل ہوتا ہے کہ کسی نے جھوٹ بولا ہوتا ہے جس سے حقیقت دب جاتی ہے اس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور لڑائیاں بھی سچ بولیں گے تو یہ برائیاں ختم ہو جائیں گی اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا
الغرض صرف سچ بولنے سے اکثر خرابیاں دور ہوجائیں گی
یاد رکھیے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص سچا ہو اور پھر وہ چور اور ڈاکو بھی ہو
سچا ہو اور پھر وہ دھوکہ باز اور منافق بھی ہو
سچا ہو اور فرائض میں غفلت برتنے والا بھی ہو
الغرض جسطرح کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں اگر ہماری قوم کا ہر چھوٹا بڑا جھوٹ ترک کر کے سچ بولنا شروع کر دے تو اکثر اور بڑے بڑے مسائل خود بخود حل ہوجائیں
حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ یہی ہمارے معاشرہ کا سب سے بڑا مسئلہ سب سے بڑی مرض ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :