مارچ میں مارچ

پیر 8 مارچ 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

 ایک زمانہ تھا ۔ہم مارچ میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں بالخصوص اسلام آباد میں پھولوں کی نمائش کی خبریں 9 بجے کے خبر نامہ میں سنا کم اور دیکھا زیادہ کرتے تھے کیونکہ پھول ہی اس دنیا کی سب سے خوبصورت چیز اس نمائش کی منتظم خواتین ہوتی تھیں ۔مختلف لوگ ان تقاریب کا افتتاح کرتے۔جیتنے والی خواتین میں انعامات بھی تقسیم کیے جاتے تھے۔

ان پھولوں کو اگانے کیلئے مٹی وہ خواتین اپنے ہاتھ سے گوندھا کرتی تھیں ،گملوں میں ڈالتیں، بیج اور کھاد کا انتظام کرتیں۔غرض یہ کہ پھولوں کے رنگ اور خوشبو میں ان عورتوں کے رنگ اور ہاتھوں کی خوشبو شامل ہوتی تب جا کر وہ اتنے خوبصورت اور دلکش نظر آتے۔ خواتین تو خود پھولوں کا ہی دوسرا نام ہیں۔ اس لیے وہ اتنی خوبصورت اور نازک ہیں اور ہم مردوں کو انکا محافظ بنایا گیا ہے مگر چند سالوں سے چند خواتین نے جن کی تعداد کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے عورت کے حقوق کی علمبردار بن کر شہرت کمانے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

شہرت تو آخر شہرت ہی ہے(اس میں نیک نامی یا بدنامی نہیں دیکھی جاتی)۔ اب تو عدالت نے بھی عورت آزادی مارچ کی بھی اجازت دی تھی اور سختی سے ہدایت بھی کی تھی کہ کسی بھی پلے کارڈ پر کوئی غیر اخلاقی نعرہ درج نہیں کیا جائے گا مگر ہمارے ہاں عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑانے کا رواج چل پڑا ہے۔ جیسے مولانا کے آزادی مارچ میں ان سے سوال کیا جاتا کہ آپ کو کس سے آزادی چاہئے تو مولانا کوئی صاف اور واضح موقف پیش نہ کر سکے۔

ویسے ہی اس عورت مارچ کے سر پر نظر نہیں آئے کہ آخر عورت کو کس سے اور کس طرح کی آزادی چاہئے۔ عورت مارچ کی روح رواں کا کہنا ہے کہ یہاں عورت اور مرد کا کوئی اختلاف نہیں ہے نہ ہی کوئی جھگڑا۔بات پدرسری نظام کی ہے۔ اس پدرسری نظام سے آزادی کو بھی انہوں نے واضح طور پر بیان نہیں کیا۔شاید وہ یہاں بھی یورپ اور امریکہ جیسا نظام چاہتی ہیں کیونکہ وہ وہیں سے آئی ہیں۔

جیسے امریکہ اور یورپ میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر باپ کا خانہ اکثر خالی ہوتا ہے ۔شاید وہ یہاں بھی ایسا ہی کچھ چاہتی ہیں ۔شاید انکا مقصد پاکستان میں بھی کسی ایسے ہی قانون کا نفاذ ہے۔ آج تو دنیا 21صدی کی بھی 2 دہائیاں دیکھ چکی ہے۔ آج سے کئی سال پہلے سر رچرڈ بیل نے کہا تھا "یورپ شدید اضمحلال کی دہلیز پر ہے" شاندار ماتھے کے پیچھے شدید ذہنی دباؤ،دیوانگی،روحانی امراض،جنسی بے راہ روی،زنا بالجبر،اور بڑھتے ہوئے جنسی امراض پوشیدہ ہیں۔

باہمی پیار اور ایک دوسرے پر اعتبار ہوا ہو چکے ہیں۔ یورپ کے سامنے ایک ہی انتخاب ہے۔ نجات کا واحد راستہ، اور یہ راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا دین ہے۔ دوسرا انتخاب ہے ہی نہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اس پدرسری آزاد معاشرے کی جانی مانی شخصیت کا کہنا ہے۔ وہ اپنے اردگرد دیکھتے تھے کہ کیسے مرد عورت کی زمہ داری سے دستبردار ہو رہا ہے اور یہاں عورت سے مراد صرف بیوی نہیں ہے۔

وہاں کا مرد ہر طرح کی زمہ داری سے آزاد ہے۔ وہ بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتا ہے اور پھر سال میں ایک دفعہ ماں اور باپ کے عالمی دن کے موقع پر وہاں انہیں پھول پیش کر کے اپنی ساری زمہ داری پوری کر دیتا ہے۔ مارچ کی روح رواں نے سب کے سامنے کہا کہ ہماری مرضی ہو گی تو شوہر سے تعلق رکھیں گی، نہیں ہو گی تو نہیں رکھیں گی۔ تو کیا اسلام مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا؟ وہ کہتی ہیں ہم چاہیں گے تو بچے پیدا کریں گے، نہیں چاہیں گے تو نہیں کریں گے۔

توکیا اس ملک کے وزیراعظم نے 2 سے زیادہ بچے پیدا کرنے سے منع نہیں کیا؟ وہ کہتی ہے میں طلاق یافتہ ہوں اور خوش ہوں تو کیا اسلام عورت کو اپنی مرضی سے اور اپنی پسند کے مرد سے شادی کا حق نہیں دیتا؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانہ میں حضرت زید  نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی۔پھر اعتراض کس بات پر ہے ۔عورت مارچ کے درپردہ جو بھی مقاصد تھے مگر ظاہری طور پر تعلیم اور روزگار کو سر فہرست رکھا گیا تو کیا اس ملک میں عورتوں کے سکول،کالج اور یونیورسٹی پر پابندی ہے؟ کیا اسکی پارلیمنٹ میں عورتیں موجود نہیں؟ کیا اس ملک کی آرمی پولیس اور ائرفورس میں خواتین شامل نہیں ہیں؟ کیا لاہور ہسپتال حملے میں خواتین وکلاء شامل نہیں تھیں؟اگر سب موجود ہے تو "مارچ میں مارچ کس چیز کا "بقول شاعر
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدِنظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گمراہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :