حادثہ، سانحہ یا پھر غفلت

منگل 26 مئی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

میرے پاس لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اپنی فیملی کے افراد میجر شہریار فضل, انکی اہلیہ اور انکے دو پھول جیسے بچوں ریان اور السہ کی موت کا ماتم کروں,جو عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے اس بد قسمت جہاز میں سوار لاہور سے کراچی آرہے تھے, یا پی آئی اے کے تباہ شدہ طیارہ میں سوار افراد کے غم کا سوگ مناؤں, یا پھر اپنے ملک کے انتظامی امور کا اور انتظامیہ کا جن کا ضمیر سو فیصد مردہ ہوچکا ہے.

آئے روز کے ان سانحوں کو حادثوں کا نام دے کر رفع دفع کیا جاتا ہے۔
یہاں کے ذرائع آمد رفت اور مواصلات کا یہ عالم ہے کہ اکثر اوقات چار چار بسیں سنگل روٹ ہونے کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹ میں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں, اور آئل ٹینکر پر ذمہ داری ڈال کر انتظامیہ برائے ذرائع مواصلات و تعمیرات بری الذمہ ہوجاتی ہے. کبھی پوری پوری ٹرین آگ کی نذر ہو جاتی ہے اور ہماری برائے نام ریلوے انتظامیہ ایک سلینڈر اور کچھ تبلیغیوں کو مورد الزام ٹہرا کر دامن کشی اختیار کرتی ہے اور کبھی کبھی ائیر بس تیکنیکی خرابی کے باوجود اور تیکنیکی عملے کے انتباہ کے باوجود, سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر اڑائی جاتی ہے اور نتیجہ میں ہر چند سال کے بعد ایک طیارہ سینکڑوں افراد کا مقتل گاہ بن جاتا ہے اور انتظامیہ برائے فضائی امور ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھا کر معاملے کو فائلوں میں مقید کر لیتی ہے۔

(جاری ہے)

۔

حسب معمول اس طیارے کو بھی تیکنیکی خرابی ہونے کے باوجود فضا میں اڑایا گیا اور چند افراد کی غلط فیصلے کی وجہ سے یہ قومی سانحہ ظہور پذیر ہوا جس کی وجہ سے سو سے اوپر لوگوں کا گھر عید کی خوشیوں کی آس میں ماتم کدہ بن گیا اور پورے ملک میں شادی مرگ کا سماں بندھ گیا.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ جہاز میں تیکنیکی خرابی ہے اسے اڑنے کیوں دیا گیا. کیوں اتنے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔
 مانا کہ موت برحق ہے اور جب بھی انسان کا اس دنیا میں متعین وقت ختم ہوجاتا ہے تو وہ میعاد سے زیادہ ایک بھی سانس نہیں لے پاتا.مگر حادثے کی صورت میں اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں.آخر کب تک یہ ہوس کے پجاری اپنی غفلتوں کی بھینٹ لوگوں کی زندگیاں چڑھاتے رہیں گے اور اسے میشت ایزدی کا نام دے کر اپنی کوتاہیوں سے خود کو بری الذمہ قرار دیں گے.

باہر کے ممالک میں کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے تو اسے سانحہ کا نام دے کر سرد خانوں میں نہیں ڈالا جاتا, بلکہ اس کی تحقیقات کی جاتی ہیں اور غفلت کے مرتکب مجرموں کو قرار واقعی سزا ملتی ہے یا پھر اعلی عہدے پر فائز ذمہ دار افسر خود ہی استعفی دے دیتے ہیں. مگر ہمارے ہاں عجیب ہی ڈھب ہے ہم ڈھیٹ بنے ایک حادثہ کا ماتم منا کر برائے نام تحقیقاتی کمیشن بناتے ہیں اور اپنی پسند کی رپورٹ بنوا کر دوسرے سانحے کا انتظار کرنے لگتے ہیں. ہم سب جانتے ہیں کہ موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو اسے چکنا ہے, مگر ہوس کے پجاریوں کی بس یہی سوچ ہے کہ جانے والا جا چکا ہے اور ہم نے زندہ رہنا ہے تا با ابد اور یہی سوچ ناگہانی حادثوں کا موجب بنتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :