"کورونا سے زیادہ خطرناک ، پب جی وائرس"

ہفتہ 4 جولائی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

آخرکار پاکستان میں آن لائن گیم "پلئیر ان نون بیٹل گراؤنڈ" (پب جی) کو عارضی طور پر ہی صحیح پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے جانب سے بین تو کر لیا گیا .
پب جی ایک آن لائن ملٹی پلیئر گیم ہے جو جنوبی کوریا کی ویڈیو گیم کمپنی بلیوہول کے ماتحت ادارہ پب جی کارپوریشن نے بنایا .
پلئیر ان نون بیٹل گراؤنڈ  نوجوانوں کے لیے ایک ناسور بنتا جارہا ہے.

اس کے نتیجے میں دنیا پھر میں نوجوان ذہنی مریض بنتے جارہے تھے, ساتھ ہی اس گیم کی وجہ سے نوجوان نسل میں خودکشی کا رحجان بھی مسلسل بڑھ رہا تھا.

(جاری ہے)

اس فیصلے کے پیچھے وجوہات بھی یہی تھیں جن میں صرف پاکستان  کے تین نوجوان اپنے ہاتھوں اپنی جان لے بیٹھے ایک تو لاہور کا رہائشی 20 سالہ شہریار گیم ہارنے پر خودکشی کر بیٹھا. اس سے پہلے لاہور کے ہی  20 سالہ جونتی جوزف اور 16سالہ زکریا پنکھے سے لٹک کر حرام موت کو گلے لگا چکے تھے .

اس کے علاوہ بھارتی شہر مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والا 16سالہ فرقان قریشی چھ گھنٹے مسلسل پب جی کھیلنے کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے جان بحق ہوا. بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع کانپور سے تعلق رکھنے والے  21 سالہ نوجوان نے پب جی گیم میں شکست کھانے کے بعد خودکشی کرلی اور انڈیا ہی کے ریاست کرناٹک کے ضلع بیل گاوی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان رگھویر کمار  نے اپنے والد کو پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر سر کاٹ کر موت کی گھاٹ اتار دیا.
چند سال پہلے جب موبائل کا اتنا زیادہ رحجان نہیں تھا  بچے بہت شوق سے پڑھتے تھے اور اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی شوق سے حصہ لیتے تھے مگر مختلف قسم کے وڈیو گیم اور پب جی کی وجہ سے وہی بچے پڑھائی سے دور ہوتے جارہے ہیں اور موجودہ لاک ڈاؤن نے اس صورت حال کو مزید سنجیدہ مسئلہ بنا دیا ہے.
اگر یہ کہا جائے کہ پب جی کورونا سے زیادہ خطرناک وائرس ہے تو غلط نہیں ہوگا .

کورونا وائرس کا حملہ انسانی جسم پر اور عضلات پر ہوتا ہے  چند دن کے بعد کورونا میں مبتلا افراد دوبارہ صحت مند ہوجاتے ہیں. صرف دو اعشاریہ پانچ فیصد اموات کا چانس ہوتا ہے. وہ بھی زیادہ تر بوڑھے اور پہلے سے کسی خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کا. ان شاءاللہ امید یہی ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین دریافت ہوتے ہی اس پر بھی مکمل قاپو پایا جاسکے گا.

مگر پب جی نے تقریبا ایک تہائی سے زیادہ  آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس میں نو عمر نوجوان اور بچے شامل ہیں . کورونا وائرس نے انسانی رشتوں کو دوبارہ مضبوط کیا لوگوں کو اللہ کے نزدیک کیا , غریبوں کا احساس دل میں جگایا ان کے کام آنا سکھایا,عبادات کے لیے وقت کی فراوانی عطاکی . ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھایا. ساتھ ہی ساتھ کورونا وائرس  قوت مدافعت کے ساتھ قوت برداشت میں اضافے کا بھی سبب بن رہا ہے.
اس کے برخلاف اگر پب جی کو دیکھا جائے تو اس میں نہ صرف وقت کا زیاں ہے بلکہ یہ  نو عمر ذہنوں میں نفرت کے بیچ بو رہا ہے.

ایک طرف قوت برداشت کو کم کر رہا ہے اور دوسری جانب  بدلہ لینا سکھا رہا ہے. پب جی کے انسانی ذہن پر انتہائی خطرناک اثرات پڑرہے ہیں جن میں بلاوجہ غصہ کرنا , جذباتی ہونا , چڑچڑا پن, خودکشی کرنا اور کسی کا قتل بھی کرنا شامل ہیں .اسی وجہ سے ماہر امراض نقسیات  پب جی کے عادی شخص کو ذہنی بیمار ی قرار دے رہے ہیں. انہی اثرات کو دیکھتے ہوئے جب چند لوگوں کی نے کورٹ سے رجوع کیا تو ہائی کورٹ نے فیصلہ پی ٹی اے پر چھوڑا اور پی ٹی اے نے اس پر مکمل پابندی لگانے کے بجائے اسے عارضی طور پر  بین کر لیا , ساتھ ہی اس کا فیصلہ عوامی رائے پر چھوڑ دیا کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں.

مانا کہ عوام کا فیصلہ مخالفت میں ہی ہوگا مگر کیا کورٹ اس پر مکمل پابندی نہیں لگا سکتی تھی؟کیا یہ گیم اس قدر ضروری ہے کہ اس کے لیے کسی ایک بھی انسانی جان کی قیمت کی کوئی اہمیت نہیں؟
بسنت پر بھی اس کی ڈور سے اموات کے پیش نظر صرف پابندی لگائی گئی تھی اور کوئی جامع قانون وضع نہیں کیا تھا اس لیے  اس کی مکمل روک تھام تاحال ممکن نہ ہوسکی , اسی طرح پب جی کے ساتھ بھی ہوگا.

نوجوان اور بچے مرتے ہیں تو مرتے رہیں. اپنے والدین کو مارتے ہیں تو مارتے رہیں متعلقہ انتظامیہ کا کوئی مالی نقصان نہ ہو .
اس پب جی وائرس کو  اور اس جیسے دوسرے وائرسوں کو مزید پھیلنے سے روکنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے . ورنہ دنیا میں خود کشی کے ساتھ ساتھ ذہنی اپاہج لوگوں کی تعداد تمام بیماریوں سے بڑھ سکتی ہے. اور مفلوج ذہن سے مفلوج معاشرہ ہی جنم لے سکتا ہے . خدارا ہوش کے ناخن لیں اقبال کے شاہینوں کی ضرورت ملکی بھاگ دوڑ سنبھالنے  کی ہے اور سرحدوں پر لڑنے کی ہے یوں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر موبائل پر ان دیکھے میدان میں  جنگ کر کر کے اپنی اور اپنے والدین کی  جان لینے کی نہیں .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :