" عام آدمی اداس ہے"

ہفتہ 25 جولائی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

ایک دن شام کے وقت میں ایوننگ ڈیوٹی کے لیے ڈاکٹرز ڈیوٹی روم میں بیٹھی تھی کہ ایک شخص مودبانہ انداز میں اجازت لے کر ڈیوٹی روم کے اندر آیا. اس نے صاف ستھرا لباس زیب تن کیا ہوا تھا .حلیے سے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد لگ رہا تھا. اس نے اپنی بیماری کے بارے میں عرض کیا ۔ شام کا ٹاٸم ہونے کی وجہ سے او پی ڈی کا ٹاٸم بھی نہ تھا  مگر  انسانیت کی بنا پر معاٸنہ کرنے کے بعد میں نے دواٸی لکھ کر دی وہ بھی صرف ایک سو پچاس روپے والی  ایک کریم  مگر وہ کچھ تذبذب کے بعد وہ پھر گویا  ہوا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ یہ ایک ٹیوب بھی خرید سکوں, اگر سرکاری دوا ہے تو دے دیجیے.

اس کا لہجہ جیسے انسانیت کے منہ پر طمانچہ تھا. یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے, اس جیسے کئی لوگ روز اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے روز اپنی مفلسی کے باعث کئی بار جیتے اور مرتے ہیں.
اسی طرح روز اسپتال جاتے ہوئے کئی عورتوں , بچوں اور بوڑھے افراد پر نظر پڑتی ہے جو بوٹ پالش کر رہے پوتے ہیں , گاڑی صاف کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ٹوٹی پھوٹی ریڑھی پر کچھ بیچ رہے ہوتے ہیں یا پھر  بھیک مانگتے نظر آتے ہیں.

اس کے علاوہ کئی پیشہ ور بھکاری  بھی ملتے ہیں مگر ان کو پیشہ ور کس نے بنایا ہے؟ اس معاشرے کی نا انصافیوں نے. یہ سب دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے کہ ہم غریب اسے سمجھتے ہیں جو اپنے حلیے سے غربت کے معیار پر پورا اترے مگر ہمارا معاشرہ ایسے ہزاروں غریبوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے سفید پوشی کا بھرم رکھا ہے.  اب تو حکومتی اقدامات سے یہ سفید پوشی بھی اپنا بھرم توڑ بیٹھی ہے۔

(جاری ہے)

مہنگاٸی میں بے پناہ اضافہ, اس پر تنخواٶں میں اضافے کے بجائے کٹوتی نے تو سفید پوش "عام آدمی" کی کمر توڑ دی ہے
یہ عام آدمی ہے کون؟؟؟ عام آدمی وہ ہے جسے اپنا بھرم رکھنے لے لیے بکرا عید کو بھی گوشت خریدنا پڑتا ہے , یہ عام آدمی وہ بیوہ عورت ہے جسے عید پر ملا گوشت اپنی گزر اوقات کے لیے سستے داموں  بیچنا پڑتا ہے , یہ عام آدمی پنجاب کا وہ پرائیویٹ استاد ہے جو مجبوری میں گولہ گنڈے  بیچتا ہے, یہ عام آدمی  خوبصورت فراک  میں ملبوس وہ بچی ہے جو والدین کی رحلت کے بعد دن کو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پڑھنے جاتی ہے اور شام کو کراچی کی سڑکوں پر گاڑیاں صاف کرتی ہے , یہ عام آدمی گزر اوقات چلانے کے لیے کراچی کی ٹیکسی چلانے والی عورت بھی ہے, یہ عام آدمی کوئٹہ کا وہ معصوم بچہ بھی ہے جو برف باری میں گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر جوتے پالش کرتا ہے .

یہ عام آدمی وہ کانپتے ہاتھوں والا بوڑھا آدمی بھی ہے جو پوری جانفشانی سے مزدوری کرتا دکھا ئی دیتا ہے. اور یہ عام آدمی خودکشی کرنے والا وہ شخص بھی ہے جو بچوں کی گرم کپڑوں کی فرمائش پوری نہ کرنے کے باعٹ حرام موت کو ترجیح دیتا ہے یا پھر اپنے پھول جیسے بچوں کو زہر پلا کر خود بھی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے .
   ہمارا المیہ ہے کہ ہم عام آدمی بن کر یا خود کو عام  آدمی کی جگہ رکھ کر کبھی نہیں سوچتے بلکہ فلاسفی بننے کے چکروں میں ظلم روکنے والوں کے راستے میں بھی رکاوٹیں ڈالتے ہیں .ایک عام آدمی کی سوچ کیا ہے؟  دو وقت کی روٹی, گھر کا کرایہ, خاندان کی صحت, بچوں کی تعلیم کا خرچ ,فیس ,کتابیں اور کپڑے.

اشیائے خوردو نوش کی ضروری کی اشیاء وغیرہ وغیرہ
مگر  عام آدمی ہمیشہ سے محروم و مجبور رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہمیشہ اس لیے رہے گا کہ ہمارے مفاد پرست حکمران اب ہماری سانسوں کے بھی مالک بن بیثھے ہیں. اب تو عام آدمی کا نہ صرف جینا  پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے بلکہ  مرنا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض  نہیں ہے کہ معیشت کیسے چل رہی ہے ہے مگر پھر بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیٹیت رکھتا ہے کیونکہ کروڑوں روپوں کی آمدنی والوں کے برخلاف یہ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے, جی ایس ٹی کی صورت میں یا پھر تنخوا دار طبقے ٹیکس میں کٹوتی کی مد میں .
     ہمارا ملک اللہ کی طرف سے ایک نعمت سے کم نہیں ہے .اس کے چار موسم ہیں.

رس بھرے  پھلوں کی متعدد اقسام ہیں .آب و ہوا کھیتی باڑی اور زراعت کے لیے موافق ہے ۔ہمارے پاس سونا, تانبا, نمک, تیل اور گیس کے زخاٸر ہیں. سیاحت کے لیے بہترین جگہیں ہیں جو قدرتی حسن کی اعلی مثالیں ہیں ۔ مگر ان سب سے بڑھ کر جو چیز ہمارے پاس ہے وہ ہے کشکول ۔ کشکول توڑنے کے دعوئے دار آتے ہیں اورکشکول توڑنے کے بجاۓ خود  تھامتے ہیں اور ہماری معیشت کو سہارا دینے کے بجائے اسے مزید دھچکا لگاتے ہیں اور اپنی معیشت کو چمکا کر اپنے مستقبل کو محفوظ بناتے ہیں .

ان ہی حکمرانوں نے عوام کو پچھلی کٸی دھاٸیوں سے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی پالیسی پر عمل کرکے محکوم اور مجبور رکھا ہے تاکہ وہ اپنے مسٸلوں میں الجھے رہیں اور لوٹ مار ہوتی رہے ۔ یہ لوٹ مار پچھلے ستر سالوں سے چل رہی ہے .شکلیں بدل بدل کر لوگ آتے جارہے ہیں  مگر عام آدمی کی حالت بجائے سدھرنے کے بد تر ہوتی جارہی ہے. ہر پانچ سال بعد تبدیلی کا نیا نعرہ لگا کر عام آدمی کو بریانی کی پلیٹ دی جاتی ہے اور یہی ایک نقطہ ہے جس پر حکومت اچھے سے عمل پیرا ہوتی ہے .
اکٹر اوقات عام آدمی کو کہا جاتا ہے کہ تم خاموش کیوں ہو ۔ اپنے حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے ہو ۔ جب عام آدمی آواز اٹھاتا ہے تو اسے یا تو ملک دشمن اور غدار کہا جاتا ہے یا بے وقوف اور جاہل .

مجبورا یہی عام آدمی جب غربت سے تنگ آجائے تو گزارے کے لیے  متبادل ذرائع کا استعمال شروع کرتا ہے جن میں دہشت گردی, چوری, ڈکیتی , راہزنی, دھوکہ دہی, اور رشوت خوری یا پھر خودکشی جیسے قبیح عمل سے بھی نہیں گھبراتا اور حرام موت کا انتخاب کرتا ہے . کیونکہ عام آدمی کو کہا گیا ہے کہ سکون تو صرف قبر میں ہے.
حکمرانوں سے التماس ہے کہ عام آدمی سے اس کے جینے کا حق مت چھینیں۔ اسے ریاست مدینہ نہیں چاہیے بلکہ ریاست پاکستان میں جینے دیا جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :