"جمہوریت کا عالمی دن اور پاکستان"

پیر 14 ستمبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

15 ستمبر کو پاکستان سمیت  پوری دنیا میں  جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 62/7 کے تحت یہ قرار داد 2007 میں منظور کی اور 2008 میں یہ دن اقوام عالم میں باقائدہ منایا جانے لگا . اس کا مقصد دنیا بھر میں جمہوریت سے آگاہی اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا شامل ہے اور ان ممالک کو جمہوری دائرے میں لانا مقصود ہے جو شخصی حکومت یا آمریت کے زیر اثر ہیں.
جمہوریت یعنی ڈیموکریسی, جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور دو لفظوں کا مرکب ہے یعنی ڈیمو (عوام) اور کریسی (حاکمیت) .

جمہوریت کی تاریخ کا سراغ دھونڈنے کے لیے ہمیں سو برس قبل از مسیح میں جانا ہوگا . تب ہمیں ہندوستاں اور یونان میں جمہوری طرز حکومت ملے گا .کچھ آگے آئیں تو اٹھاریں صدی عیسوی میں فرانسیسی مفکر روسو, مونٹیسکو اور والٹیر نے اپنے افکار کے ذریعے دنیا میں آزاد خیال  جمہوریت  کی بنیاد رکھنے میں مدد دی. جمہوریت میں صدارتی نظام بھی ہوسکتا ہے اور پارلیمانی نظام بھی.
جمہوریت سے مراد ایسا طرز حکمرانی جہاں آمریت کے برخلاف عوامی رائے شماری سے عوامی نمائندوں کی آئین ساز حکومت تشکیل دی جا سکے.

جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور پالیسیاں مرتب کریں. جمہوریت کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے. نمبر ایک بلا واسطہ جمہوریت, جس میں کسی بھی علاقے کے عوام مل کر مشترکہ فیصلہ سازی کرتے ہیں اور دوسری قسم بلواسطہ جمہوریت ہے جو مختلف اقوام میں رائج ہے . اسے بلواسطہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں رائے شماری کے ذریعے عوامی نمائندے آگے آتے ہیں اور حکومت تشکیل دی جاتی ہے.
یونانی مفکر ہیروڈوٹس کا جمہوریت کے بارے میں کہنا ہے کہ "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں"۔

(جاری ہے)


یعنی بقول سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے قول کے: "goverment of the people,by the people,for the people" یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر ".

اس سے ہیروڈوٹس کی رائے کو مزید تقویت ملتی ہے.
اسلامی حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مطلق العنان حکومت صرف اور صرف خدا بزرگ و برتر کی ہے . وہی اس پوری دنیا کا بلا شرکت غیرے مالک و حاکم ہے اور مرضی بھی اسی کی ہی رائج ہونی چاہیے. قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں .
ترجمہ:
"یاد رکھ تخلیق بھی اسی کی اور حکم بھی اسی کا"
الاعراف 54.
ایک اور جگہ فرماتے ہیں.
ترجمہ:
"حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو نہیں".
الانعام 57
اسلام طرز حکومت میں عوام کے حقوق کی پاسداری کو ترجیح دی جاتی ہے جب کہ جمہوریت میں عوامی رائے کی پاسداری کی جاتی ہے .

بہت سے مغربی ممالک نے تو جمہوریت میں ہی اسلامی شعائر شامل کرکے ترقی کے جھنڈے گھاڑ دیے. مگر اسلامی ممالک میں جمہوریت کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے جیسا کہ جمہوری طرز حکومت میں عوامی نمائندوں کی رائے مقدم ہوتی ہے اور اپنی انہی جمہوری  اختیارات کو یہ نمائندے  مشترکہ رائے شماری سے غلط بھی استعمال کرتے ہیں . اور غلط قسم کے بل بھی منظور کروالیتے ہیں یا پھر ضروری اور اسلامی بل مسترد بھی کر تے ہیں .اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں  آکر جمہوریت اسلامی اقدار , احکام الہی اور قران و سنت  سے متصادم ہو جاتا ہے.

ارشاد خداوندی ہے
ترجمہ:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں , اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے" .
الحج 41
اگر اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہے کہ حاکم بننا ایک ذمہ داری ہے . جسے موجودہ حکمرانوں نے حق سمجھ کر ہتھیا لیا ہے اور اسے موروثیت میں بدل دیا ہے یہ لوگ اسے اپنا حق سمجھ کر اپنے فرائض سے رو گردانی کر رہے ہیں .
نبی کریم کا ارشاد ہے .
"حکومت کا سربراہ نگران ہے اور جن کی نگرانی اس کے سپرد ہے .ان کے بارے میں اس کو جواب دہ ہونا پڑے گا".
جیسا کہ جمہوریت میں آمریت کے برخلاف ایک شخص کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ یہاں تین مختلف شعبے بن جاتے ہیں جو اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے جوابدہ ہوتے ہیں.

جن میں مقنہ , یعنی قانون ساز ادارہ, انتظامیہ , جو انتظامی امور کو دیکھتا ہے اور عدلیہ, جو ان قوانیں کی پاسداری کرواتا ہے.
جمہوری حکومت کا فائدہ یہ ہے کہ یہ عوامی حکومت ہوتی ہے اور عوامی حقوق کی پاسداری کرتی ہے . اس لیے جمہوریت کے مستحکم ہونے کا بلواسطہ تعلق بھی عوام کے حقوق کا تحفظ ہے . یہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے. عوامی حکومت اور عوام میں ایک مربوط رابطہ رہتا ہے.

اس میں اقلیتوں کو بھی بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے. غلط اقدامات کو روکنے کے لیے عوامی نمائندوں کی ایک جماعت اپوزیشن کی شکل میں ہمیشہ موجود رہتی ہے.
لیکن اگر جمہوریت کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہی جمہوریت اس وقت نقصان دہ ہوجاتی ہے جب عوام تعلیم اور شعور سے دور ہوں. دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے کے صرف انسانوں کی گنتی ہوتی ہے تو بیجا نہیں ہوگا.

کیونکہ اس گنتی میں عقل و شعور بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جب کہ سرمایہ دار  اور پیسے والا طبقہ آگے آجاتا ہے جو ایک بریانی کی پلیٹ یا چند لڑکیوں کو نچا کر حکمرانی لیتا ہے. جب کسی بھی ملک میں جمہوریت کا یہ معیار رہ جائے تو اس  برائے نام دیمک زدہ جمہوریت  سے آمریت بہت بہتر لگنے لگتی ہے اورصرف اور صرف اسی وجہ سے آمریت کے راستے کھلتے ہیں.
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے اگر بات کی جائے  تو نام سے واضح ہے کہ پاکستان ایک اسلامی اور  جمہوری ملک ہے .

مگر کیا حقیقت میں پاکستان واقعی ایک اسلامی اور جمہوری ملک ہے . اگر ہاں تو ہمیں وقتا"فوقتا" کسی نہ کسی  مارشل لاء کا کیوں سامنا رہتا ہے . اور ہر وقت ہمارے جمہوری ملک پر آمریت کے سائے کیوں منڈھلاتے ہیں.1947 سے لے کر 2020  تک پاکستان میں فوجی حکومت کے چار ادوار گزر چکے ہیں اور مارشل لاء کا یہ دورانیہ  تقریبا ساڑھے تین دھائیوں سے اوپر تک رہا ہے .

اس دوران چار فوجی جنرل , جنرل ایوب خان , جنرل یحی خان , جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف حکمران رہے ہیں. اس سے یہ بات  واضح ہے کہ ہمارے ہاں باقی ماندہ جمہوریت بھی پولیو کی زد میں آ کر ہمیشہ کے لیے لولی لنگڑی ہوچکی ہے. ہمارے ہاں عوام کی حکومت عوام پر ہی آئے روز ظلم کرنے لگی ہے. مگر ہمیں رہتے وقت میں ہی جمہوریت کے اصل حسن کو سمجھنا اور لاگو کرنا ہوگا اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہوگی  ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ دیمک زدہ جمہوریت کسی روز بستر مرگ پر آخری ہچکیاں لے رہی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :