"سوال بدلیں، حالات بدل جائیں گے"

پیر 21 ستمبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے دن  ہوا کی بیٹیاں  مروا, مہوش, کوثر ,زینب, کلثوم , عالیہ, مختاراں مائی, طاہرہ, شازیہ خالد اور ارشاد نسرین کی شکل میں  بے آبرو  ہوتی ہیں. پھر چاہے وہ دودھ پیتی چھ ماہ کی معصوم کلیاں ہوں , اپنی گڑیوں سے کھیلتی زینب , کالج جاتی بچیاں یا پھر پردہ دار یا فیشن ایبل خواتین  .ان میں سے اکثر زیادتی کے بعد قتل کردی جاتی ہیں یا وہ زمانے کے تازیانوں کے خوف سے خودکشی کر لیتی ہیں اور افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ بات اب  مرد اور عورت کی بھی نہیں رہی کیوں کہ اب تو سولہ سترہ سالہ نوجوان بھی درندگی کا شکار ہورہے ہیں مگر کوئی بھی مجرموں کو پوچھنے والا نہیں.

(جاری ہے)

ساتھ ہی روزانہ پروین , شاہینہ شاہین ,عروج اقبال, طاہرہ یا ناز ملک کی شکل میں خواتین بہیمانہ طور پر قتل کی جارہی ہیں ,کاروکاری کا شکار ہوجاتی ہیں, نفسیاتی لوگوں کی وجہ سے تیزاب  کا شکار بن جاتی ہیں . یا پھر پاکستان کے نوجوان اور مستقبل کے معمار  نقیب اللہ, ولی خان بابر , حیات یا پھر شاہ زیب کی صورت ان کاؤنٹر کے نام پر ماورائے عدالت تختہ دار پر چڑھا دی جاتی ہیں .مگر کوئی منصف نہیں.

کیونکہ ہمارے ملک میں یا تو قانوں نہیں ہے یا اگر ہے توآنکھوں پر پٹی بندھا ہوا . اب تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہاں درندگی بڑھ گئی ہے اور جنگلوں کا قانوں رائج ہے . کیونکہ انسانیت کے دعوے دار تو اب اس بات کے کہلانے کے بھی حق دار نہیں رہے کہ وہ جنگلی بن گئے ہیں کیونکہ جنگلوں کا بھی کوئی دستور یا قانون ہوتا ہے .
اسلامی جمہوریہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنا پر حاصل کیا گیا .

مگر یہ ایک ایسا  اسلامی ملک ہے جہاں اسلام کے قوانین کی پاسداری تو دور اسلامی قوانین کا نفاذ تک نہیں. آئین ساز اسمبلی کے برائے نام عوامی نمائندگان کو اسلامی قانوں غیر انسانی لگتے ہیں اس لیے انہیں نافذ کرتے ہوئے انہیں مشکل پیش آتی ہے اور پہلے سے رائج قوانین کے تحت  مظلوم کے انصاف تک پہنچتے پہنچتے  عمر نکل جاتی ہے.
زنا بالجبر ایک مجرمانہ فعل ہے اور پاکستان میں اس کی سزا , موت یا پھر دس سے پچیس سال قید ہے.

اور اجتماعی زیادتی کی سزا , سزائے موت یا عمر قید ہے. پاکستان میں سالانہ تین ہزار کے قریب زنا بالجبر کے مقدمے درج ہوتے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان میں سر صرف چار فیصد تک مجرم سزا پاتے ہیں اور بہت سوں کی تو شنوائی تک بھی نہیں ہوتی , اور بہت سے ایسے کیس بھی ہیں جو بدنامی کے ڈر سے گھر کی چار دیواری میں دفن ہوجاتے ہیں.
کیا برائے نام  ریاست مدینہ کے مالکان  ان پے درپے مظالم کی شنوائی کریں گے یا صرف  گفتار کے غازی بن کر اور خوشامد پرست ٹولے کی تعریفیں بٹور کر خوش ہوتے رہیں گے .
کسی اینکر نے اپنے ایک پروگرام میں کہا کہ ہمارے سوال غلط ہیں ہم یہ نہیں  پوچھتے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ کس نے کیا ؟ اسے سزا کیوں نہیں ملی ,کب سزا ملے گی  بل کہ ہم فورا" اس شخص کو اپنے سوالات کے گھیراؤ میں لاتے ہیں جس پر ظلم ہوا ہوتا ہے .

ہم اپنی ہمدردیاں مظلوم کے بجائے ظالم کی جانب کر دیتے ہیں باوجود اس کے کہ ظلم تو ظلم ہے اس کا روکنا اس کے خلاف لڑنا اور مظلوم کا ساتھ دینا ہمیں ہمارا دین سکھاتا ہے . پھر چاہے ظالم  کوئی بھی کیوں نہ ہو, ظلم کا تدراک اور مجرموں کا کیفر کردار تک پہنچنا ضروری ہے .
جیسے سانحہ موٹر وے پر  ہمارے نام نہاد محافظوں نے اس خاتون کا ساتھ دینے کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور آج کے دور کے حوالے سے عجیب و غریب سوالات داغے گئے کہ وہ محترمہ رات کو بچوں کے ساتھ اکیلے کیوں سفر کر رہی تھیں؟  گاڑی کیوں  ڈرائیو کررہی تھیں .پٹرول کیوں ختم ہوگیا ؟ گاڑی کے شیشے کیسے ٹوٹے؟  وغیرہ وغیرہ.

جس پر ظلم ہوا ہے, اسے ہی سوالیہ نشان بنا دیا گیا.
جو لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ محترمہ رات کو اکیلے سفر کیوں کر رہی تھیں, ان کے لیے عرض ہے کہ اوکاڑہ کی خاتون وکیل جو چھ بچوں کی ماں بھی ہے اپنی چیمبر سے اغوا کی جاتی ہے اور آٹھ دن تک  اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں . اسے چھوڑیں اس پر بھی سوال  ہونگے کہ وہ چیمبر کیوں گئیں؟ ایک اور خاتون کو  گھر میں شوہر کے سامنے سے زبردستی اٹھا کر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا,اس کا کیا.

مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی عورت اس طرح کے حالات سے دوچار ہوجائے تو کسی بھی بھیڑیے کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ جو اس کے دل میں آئے وہ کر سکتا ہے .
میں چار پانچ سال تک نیشنل اور ٹی بی پروگرام کی ضلعی کووآرڈینیٹر رہ چکی ہوں .مجھے اکثر میٹنگز کے لیے مہینے میں ایک چکر اپنے علاقے سے کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا لگانا پڑتا تھا . اور اکثر شوہر کے بغیر بچوں  اور ڈرائیور کے ساتھ سرکاری گاڑی میں کوئٹہ آتی تھی .

اور یہ دورانیہ تقریبا سولہ سترہ گھنٹے کا ہے. الحمد اللہ کبھی کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا . مگر اکثر و بیشتر گاڑی خراب ہو جاتی تھی . لمبے سفر کی وجہ سے اکثر پٹرول ختم ہوجاتا تھا. مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا کچھ ہوجائے تو کسی کو بھی اجازت ہے کچھ بھی کرنے کی. باقی خرابیاں اور اچھائیاں ہر جگہ ہی ہوتی ہیں مگر ہمارے ملک میں اب تو یہ سب روز کا معمول بن گیا ہے .

کہیں ماں باپ کے سامنے قتل, کبھی اغوا کرکے چھ چھ دن زیادتی کرنا ,چھ ماہ کے شیر خوار معصوم سے لے کر ستر سالہ بوڑھی ماؤں کا زنا کرنا, سولہ سالہ لڑکوں کو ریپ کرکے مار دینا. قبر سے مردہ عورتوں کو نکال کر ان کا ریپ کرنا . بچوں کے سامنے ماؤں کو قتل کرنا . لوگوں کو معاشی طور اتنا مجبور کرنا کہ ان کے لیے کوئی دوسرا رستہ نہ رہے اور وہ خودکشی جیسا قبیح عمل کریں .
اس لیے کہنے والے نے بالکل درست کہا ہے کہ جب تک آپ کے سوال نہیں بدلیں گے حالات نہیں بدلیں گے. خدارا یہ ایک اسلامی مملکت ہے اور اسلامی نظریے کے نام پر حاصل کیا گیا.  اسے دوبارہ مزید  نظریوں کی جانب نہ دھکیلیں جن میں ایک نظریہ ظالم کا اور دوسرا  نظریہ مظلوم کا رہ جائے..

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :