میرا قانوں کس کو سزا دیتا ہے

بدھ 16 ستمبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

میرے ذہن میں آج یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ
چوروں کو ملتی ہے جزا اس میں
میرا قانوں کس کو سزا دیتا ہے
آج فرانس سے آئی بہن اور لاہور موٹر وے ریپ کیس پہ ہوتی قومی اسمبلی کی بحث کے بعد میں تو سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ سزا کسے مل رہی ہے۔ مظلوم کو یا ظالم کو – کوئی کہہ رہا ہے کہ جس موٹر وے پہ یہ سب کچھ ہوا الحمداللہ  وہ  ہماری بنائی ہوئی ہے تو کسی کی زباں پہ سی سی پی او کے قابل مذمت بیان اور اسے عہدے سے ہٹانے کی ضرورت  کا سوال ہے- کوئی کہتا ہے کہ ایک عورت کو بندھے رشتوں سے نکال کے صرف ایک عورت اور پاکستانی شہری کے جانچا جائے- کہیں باتیں  ایسے مجرموں کو نامرد  بنا دینے کی ہیں اور کہیں سر عام لٹکانے کی- مجرم عابد کی بیٹی حکومتی قبضے اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہے- تقریبا" تمام رشتے دار زیر حراست ہیں۔

(جاری ہے)

کیا یہ سب کچھ اس بہن کے زخموں پہ مرہم ہے یا  اس کے زخموں پہ نمک پاشی اور ملزم کے رشتے داروں سے  کچھ ایسی تفتیش ہے جس کا شاید کوئی جواز کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتا- کیا کسی کو نامرد کئے جانے سے اسی کی ذہنی انحطاط کی بھی تعمیر ہو سکے گی اور معاشرہ اس کےظلم سے محفوظ رہ سکے گا – کیا گارنٹی ہے کہ وہ ریپ تو نہ کر سکے لیکن لوٹ مار کا وہی سلسلہ جاری رکھے-بات مغربی ممالک کی ہوتی ہے کہ سر عام سزا سے ان کی ناراضگی مول نہیں لی جا سکتی لیکن سوال تو یہ ہے کیا کوئی بہن بیٹی ان ممالک میں بھی موٹر وے پہ دو گھنٹے سائیڈ پہ گاڑی لگائے ریاست سے پٹرول کی امید لگائے بیٹھی رہتی ہے اور اس حیوانگی کا شکار بنتی ہے-  جیو فینسنگ میں استعمال ہوئی موبائلز کی سمز کسی اور کے استعمال میں ہوں تو کیا یہ  جرم نہیں ہے- اگر یہ جرم ہے تو اس ملک کی بیٹیوں کے نام پہ رجسٹرڈ سمز کے نمبر کیسے ان اوباشوں کے ہاتھ لگتے ہیں جن سے بہنوں بیٹوں  کے موبائلز پہ جنسی ہراسگی پھیلانے والے  پیشہ وروں  کی جنسی ہوس کی تسکین ہوتی ہے – کیا ان نمبروں کی اگر شکایت بھی کر دی جائے تو اس پہ قانون حرکت میں آتا ہے- شکایت کے بعد وہ نمبر تو بلاک ہو جاتا ہے لیکن کیا وہ شخص اپنے شناختی کارڈ پہ بھی بلاک  ہوتا ہے – وہ دوسری سم خریدتا ہے اور اپنا  مذموم کھیل جاری رکھتا ہے- ایک شکایت کر لو اس کے بعد مدعی کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دباؤ کو برداشت کر سکے اور صلح نہ کرے – اس کی طاقت کون- اگر ایسا نہ ہوتا تو 2013ء میں چک 257 ایچ کا رہائشی ایک مزدور دو گھنٹے پندرہ سالہ بیٹی اور بیوی کے گینگ ریپ کے بعد صلح کر سکتا تھا- اس ملک میں زین کی مائیں کئی ہیں جو آنکھوں پہ پٹی بندھی انصاف کی دیوی کے سامنے کہتی ہیں کہ میری جوان بیٹیاں ہیں- میں ان کی عزت کی حفاظت کی خاطر زین کے قتل کے مقدمے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی – میرا انصاف رب ذوالجلال کرے گا- ہاں وہی انصاف جو رنگ برنگے مشروبات کا اگر خود بھی ٹیسٹ کروائے تو شہد کی رپورٹ پائے- قصور کے زینب قتل کے مجرم کی پھانسی کے بعد کیا وہاں یہ سلسلہ رک گیا ہے- کیا ڈارک ویب چلانے والے قانون کے ڈر سے کانوں کو ہاتھ لگا کے دبک کے بیٹھ گئے ہیں- کیا قصور میں ایک ایف آر درج کروانے کے لئے تین شہریوں پہ قتل کرتی اس گولی کے پیچھے کندھے کو بھی کسی نے بے نقاب کیا ہے- کیا واقعہ ساہیوال میں چند کروڑ روپے ہی وہ مرہم  تھا جو ان یتیم بچوں  کا دارو تھا – کیا اس واقعے سے جو  عام عوام کے دلوں پہ بیتی  تھی  اس درد کا درماں بھی کیا گیا تھا- وزیر اعظم صاحب اس وقت خلیجی ممالک میں تھے اور ان کا وعدہ تھا کہ وہ واپسی پہ ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے تو سوال ہے کہ ان کی واپسی کب تک متوقع ہے- سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ ہوتا کئی ماہ کا اسلام آباد میں دھرنا  اور اس کا نتیجہ کیا تھا – کیا باقر نجفی رپورٹ کی روشنی میں قانون کے شکنجے میں وہ متاثرین آئے تھے یا کہ ان کے پیچھے ہاتھ کٹے تھے جن پہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی – قانون کا مذاق کون اڑاتا ہے کیا وہ فاتحین اڑاتے ہیں جو قتل کے بعد  بھی  وی آئی پی جیلوں میں رہتے ہیں اور رہائی پہ فتح کے نشان بناتے  کمر کے شدید درد کے باوجود بھی شادیانے بجاتے یوں بیٹھتے ہیں کہ غم میں ڈوبا معاشرہ چار حرف بھیج کے اگلے سانحے کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے- کراچی کی مروہ کی بات کروں تو جلتے بدن اس کی چیخیں اس اسمبلی کو سناؤں یا پھر اس معاشرے کو جو ظلم سہتا بے حس ہوا جاتا ہے- وزیر اعظم صاحب کو سنا ہے رحم  بہت آ جاتا ہے لیکن انہیں ان مظلوموں پہ رحم کیوں نہیں آتا کہ جو جرم کے تختہ مشق بنے بس اسے جھیل رہے ہیں- یہاں دھنیا چور سزا پاتا ہے لیکن اربوں ڈکار جانے والے  قانون سے کہتے ہیں کہ ہے کسی کی  جراءت جو ان پہ مقدمہ چلا سکے- وزیر اعظم صاحب  خود کہتے ہیں کہ بلیک میل کرنے والے دو سال سے اپنے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں تو کیا ان کو آپ سے کوئی  سزا اور قانونی معاملات میں معاونت چاہیئے اور اگر ایسا ہے تو کیا اس  رعایت کا اطلاق عام عوام پہ بھی ہو گا- کیا  آپ کے پچھلے رحم و کرم کے بعد کوئی اور قیدی بھی لندن جائے گا- کیا ان کی کابینہ میں بیٹھے گندم ، چینی چوری  اور بجلی گیس  میں  گھپلوں کے داغ لئے بیٹھے معاونین بھی ان کو بلیک میل ہی تو نہیں کر رہے کہ ان کے خلاف ہوتے فیصلے اور قانون آنکھیں ہی بند کر گیا ہے- اگر یہ سب کچھ ہے تو کم از کم ایسا ہی قانون بنا دیجئے کہ سزا کا معیار کیا ہوگا اور کس درجے پہ فائز اس سے مستثنیٰ ہوں گے – کم از کم  جرم کرنے والے کو پتا ہو کہ اگر وہ اس معیار پہ پورا نہیں اترتا تو دھر لیا جائے گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :