نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر

پیر 26 اکتوبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

اسلام سلامتی کا مذہب اور میانہ روی کا درس دیتے دہشت گردی اور انتہا پسندی پہ قدغن لگاتا ہے ۔ ایک مسلمان سب کچھ سہہ جاتا ہے لیکن جب بات ناموس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آئے تو جان قربان کرنے سے بھی نہیں چوکتا ۔ اس کی نظر میں
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا  شاہد  ہے کامل  میرا  ایماں ہو  نہیں ہو  سکتا
ناموس نبی پہ حملے کب سے جاری ہیں ۔

ایک دوسرے کے عقائد پہ حملے اور لگائیں بندشیں صرف نفرتیں ہی بڑھاتی ہیں جس سے امن و آشتی کی فضا خون کی بو سے لد جاتی ہے ۔پیرس کے ایک مصروف مضافاتی علاقے میں واقع ایک مسجد میں نماز کے لیے جانے والے 15 سو سے زیادہ مسلمانوں پہ بند کر دی گئی ہے ۔ مساجد اور اسلام تو امن اور در گزر کا پیغام دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ صدر میکخواں کی ایک اور غلطی ہے جو اور انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہے ۔


صدر میکخواں کی جانب سے استاد سیموئیل پیٹی کے اٹھارہ سالہ عبداللہ کے ہاتھوں قتل کے بعد دنیا بھر میں ایک احتجاج کی لہر امڈ آئی ہے ۔ اس پر اربوں مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کو سیکولرازم لبادے میں چھپانے کی یہ کوشش اور زیادہ ظلم ڈھا رہی ہے ۔ بات اس انتہا پسندی کی ہے جو دنیا کے مذاہب کو بر سر پیکار لے آئی ہے ۔ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکاری طور پہ پیرس کی عمارتوں پہ دکھائے جانے والے خاکے ہر مسلمان کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں ۔

اس پہ صدر میکخواں نے یورپ اور پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں اور ان پر حملہ کیا ہے ۔ کون چاہتا ہے فرانس پہ قبضہ ہو یہ سب ان کے اپنے دماغ کی اختراع تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں ۔ ان کا یہ بیان جلتی پہ تیل کے مترادف ہے کہ جس میں صدر میکخواں نے کہا ہے کہ سیمیول پیٹی نامی استاد ’اس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد کو ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا ہے‘ لیکن فرانس ’اپنے کارٹون (پیغمبرِ اسلام کے خاکے) نہیں چھوڑے گا۔


ترک صدر اردوغان نے اس معاملے پر ایک خطاب کے دوران کہا کہ ’میکخواں نامی اس شخص کو اسلام اور مسلمانوں سے نہ جانے کیا مسئلہ ہے؟‘
جبکہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے فرانسیسی رہنما کو اسلام پر بغیر سمجھ بوجھ کے حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔
صدر میکخواں کے سامنے 2022 ء کے انتخابات ہیں ۔ جن میں ان کی کم ہوتی مقبولیت ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے ۔

اور وہ نوے فیصد آبادی کو دس فیصدی مسلمانوں پہ ترجیح دیتے انتہا پسندی پر ابھار رہے ہیں ۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں  کی عوامی مقبولیت میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران تین فیصد کم ہوتے ہوئے 18 فیصد رہ گئی ہے ۔ یو گوو کے  سی نیوز اور دی ہف پوسٹ  کی جانب سے کروائے جانے والے سروے کے مطابق یلو جیکٹس کے  ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے میکخواں  انتظامیہ کے خلاف مظاہروں کا روپ اختیار کر گئے ہیں جس سے صدر کی مقبولیت میں بہت کمی دیکھی گئی ہے ۔


نومبر میں کروائے جانے والے سروے  میں صدر ماکروں کی مقبولیت میں تین فیصد کمی ہوتے ہوئے 18 فیصد تک رہ گئی ہے جبکہ اس سے پہلے یہ مقبولیت 21 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
صدر میکخواں  کی مقبولیت میں دو ماہ کے دوران سات فیصد کمی دیکھی گئی ہے ۔ اپنی مقبولیت میں اضافے کے لئے رواں ماہ استاد کے قتل سے قبل میکخواں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’اسلامی علیحدگی پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے مزید سخت قوانین لائیں گے ۔

انھوں نے کہا تھا کہ تقریباً 60 لاکھ افراد ایک مخالف معاشرہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں مگر انھیں ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔
اس سب پہ ترکی صدر اردغان کے بیان پر جس میں انہوں نے فرانسیسی صدر کو دماغی مریض کہا تھا  فرانس نے ہفتے کے دن ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اردوغان نے یہ بیان میکخواں کے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق رویے کے پس منظر میں دیا تھا ۔

فرانسیسی صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'صدر اردوغان کا بیان قابل قبول نہیں ہے۔ غصہ و توہین کوئی طریقہ کار نہیں۔‘
نیٹو اتحاد کے رکن ممالک فرانس اور ترکی کے درمیان شام، لیبیا اور ناگورنو قرہباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان سمیت کئی مسائل پر تناؤ موجود ہے۔حالیہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں کویت، اُردن اور قطر سمیت دیگر ممالک کے کاروباری حضرات کو اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹاتے اور ان مصنوعات کو دوبارہ فروخت نہ کرنے کا عزم کرتے دکھایا گیا ہے۔

پاکستان میں گذشتہ 48 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے ۔
صدر میکخواں اپنے سے پچیس سال بڑی اپنی استانی سے شادی کے بعد بھی وہ درس نہیں سمجھ سکے جو محبت ۔ برد باری اور برداشت کا ہے ۔ حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر دل میں جاں گزیں ہے اور یہ وہ محبت ہے کہ جس میں سرشار کوئی بھی مسلمان جان و مال یا آل اولاد کی پرواہ نہیں کرتا ۔ دنیا کے سربراہوں سے درخواست ہے کہ اس پہ بین الاقوامی قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرہ اور دنیائے عالم امن کا گہوارہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :