
ہمیں ہے سب جائز
جمعرات 15 اپریل 2021

ڈاکٹر شاہد صدیق
لاشوں سے بھری ہم کو بوری بھی ہے جائز
سب پیر و مجاور کا ڈاکا بھی ہے نیکی
اس ملک کے صاحب کو چوری بھی ہے جائز
جب چاہیں اچھالیں وہ کیچڑ کے بھرے دریا
مفتوں میں ملی سب کو کوڑی بھی ہے جائز
بیٹی کے محافظ سارے سوچ سے ہیں عاری
اپنی بے گانی ہو ہر چھوری بھی ہے جائز
اک من کی ہوس کو جائز ہے ہر اک چمڑی
کالی سے انہیں کیا اک گوری بھی ہے جائز
لٹکا دے جو سولی پر حاکم کی اطاعت میں
پھندہ وہ گردن کا وہ ڈوری بھی ہے جائز
جی بھر کے سلائے جو دن بھر انہیں وہ شاہد
جھوٹی ہو مگر میٹھی ،وہ لوری بھی ہے جائز
(جاری ہے)
ہمارے بھی اپنے پیمانے ہیں ناپ تول کی بات ہو تو نہ ناپ پورا نہ تول ہی مناسب- جھوٹ ، فریب، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ میرا جسم میری مرضی کے عنوانات اور بینرز ہماری اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو سب سے پہلے اپنے نفس کے خلاف ہی جہاد کوایمان اور انسان کہا گیا ہے- ہمیں سدھرنے کے لئے کسی میرکارواں یا پیر کامل کا کیوں انتظارہے حالانکہ ہم سب کو ددیعت کردہ وہ راہنما ضمیر کی صورت ہم میں ہی موجود ہے۔مجھے تو عرفات کے میدان کو وہ خطبہ یاد ہے جس میں نبی آخرالزماں ﷺ نے وا شگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تمہاری راہنمائی کو اپنی کتاب اور عملی تصویر کو اپنی سیرت چھوڑے جا رہا ہوں۔ مجھ پہ دین مکمل ہو گیا اب اس دین کے تم وارث ہو لیکن ہم وارث ان کے دین کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہماری زبوں حالی کا سبب ہے۔ میرے نبی ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کی سیرت پر چلا جائے ۔ بشمول میرے ہم تو اس بدھو سے بھی بد تر ہیں جس کی ہدایت آپ کے ذریعے ہوئی وہ تو نا بلد نا آ شنا تھا لیکن ہمارے لئے تو قرآن شریف بھی ہے اور آپ کی سیرت بھی۔ وہ اگر بیٹی کو زندہ درگور کرتا تھا تو ہم اس ننھی سی جان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا نے کے بعد گلا گھونٹ کے مارتے ہیں اور کوڑے کےڈھیر پہ پھینک کے اپنی جہالت اور درندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہم آنکھوں سے خواب نوچنے وہ والے وہ درندے ہیں کہ جن سے جنگل کے جانور بھی بھلے محسوس ہوتے ہیں۔ ہم احتساب کے نعرے لگاتے خود کو پاک صاف تو بتاتے ہیں لیکن جب حساب کتاب کا وقت آتا ہے تو اسے انتقام گردانتے ہیں۔ آج کے دور کی بات کروں تو چینی اسکینڈل سے لے کر قطری خط تک کی تاریخ اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہم نے سدا سے احتساب کے اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے یا پر کاٹے ہیں۔ ہم یوں جتھوں میں اداروں کے پاس پیشی کو گئے ہیں کہ احتساب کرنے والے گھبرا گئے ہیں۔ اور اگر احتساب کرنے والوں کی بات کروں تو وہ بھی یوں ارب پتی ہیں کہ ان کے احتساب کے لئے ایک اور ادارہ چاہیئے۔ ہمیں تو احتساب نام کی شے یوں ڈستی ہے کہ ہم پاکستان کھپے سے منحرف ہو جاتے ہیں کہ اگر لیڈر پر ہاتھ ڈالا جائےتو پھر پاکستان کی بقا کی بھی ضمانت نہیں۔ پاکستان کی بقا مطلوب ہے تو نہ پاپڑ والے کو پوچھا جائے اور نہ ہی پان والے کو ۔ بس مل ملا کے ایک دوسرے کو ہی حاجی صاحب کہا جائے۔ غرض ہمیں سب جائز ہے۔ فیصلہ آپ کا کہ کیا اب ایسے ہی چلے گا یا ہم چاہتے ہیں کہ جائز و ناجائز کی تمیز جانیں۔ اگر ہم یہ تمیز نہیں جاننا چاہتے ہیں تو ہم بہے جارہے ہیں اس گٹر کی جانب جس میں گئے تو سدا اسی کا ہو کے رہ جائیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر شاہد صدیق کے کالمز
-
چرخ کا سنگ فساں روتا ہے
پیر 10 جنوری 2022
-
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سوتے،جاگتے ضمیر
جمعرات 18 نومبر 2021
-
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی
پیر 23 اگست 2021
-
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021
-
ارتقائے معکوس
بدھ 28 جولائی 2021
-
اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی
جمعرات 1 جولائی 2021
ڈاکٹر شاہد صدیق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.