کورونا میں ہمیں سنجیدہ ہونا ہو گا

جمعہ 30 اپریل 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہمیں پیش بندی کی عادت نہیں۔ جب سر پہ پڑتی ہے تو ہماری بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے اور ہم اس کے انجام اور ہوئے نقصان کو مشیت ایزدی سے جوڑتے کوئی نہ کوئی دلاسہ یا ایسا ذمہ دار ڈھونڈ لیتے ہیں کہ ہر  چیز اس کے سر تھوپتے جاتے ہیں اور سر پیٹتے جاتے ہیں۔ ایک دن ایک صاحب بیٹھے ایک عجیب سوال کے بعد داد کے طلب گار تھے۔

سوال تھا کہ کیا ڈاکٹر صاحب آپ نے کرونا دیکھا ہے۔ میں نے جب کہا کہ جس پہ بیت جاتی ہے یا  جس گھر سے کوئی اپنا عزیز کرونا کی وجہ سے اٹھ جاتا ہے تو اسے کرونا نظر آنے لگ جاتا ہے اور  جو خوش قسمت ہیں کہ بچے ہوئے ہیں وہ اس کے وجود سے انکاری ہیں۔بہر حال مطمئن نہ ہوئے ۔ اعداد و شمار اور طب  کو صلواتیں سناتے رخصت ہوئے۔ کل ہی کی  بات ہے پھر وارد ہوئے کچھ غمگین تھے- شاید کوئی ان کا پیارا اس جہاں سے اس مرض کی وجہ سے دار فانی کو منہ موڑ گیا تھا اس لئے انہیں کرونا نظر آنے لگا تھا اور جس سے ان کی عقل سلیم نے تسلیم کر لیا تھا کہ کرونا ہے اور اب اس پہ ریسرچ کا یہ عالم  ہے کہ ایک  وٹس ائپ میسج ہاتھ میں پکڑے کہہ رہے تھے ایک بھارتی نے کرونا کا علاج  کالی مرچ اور پیاز  و نمک میں ڈھونڈ لیا ہے جسے ڈبلیو ایچ او نے منظور کر لیا ہے اب کرونا یوں ختم ہو گا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

(جاری ہے)

میں نے پوچھا کیا ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پہ آپ نے اس کی منظوری کا سرٹیفکیٹ یا تصدیقی مقالہ دیکھا ہے کہنے لگے نہیں لیکن یہ میسج جہاں سے آیا ہے وہ بہت جہاں دیدہ اور کایاں شخصیت ہیں وہ بات غلط نہیں کرتے۔ میں نے کہا ان سے پوچھ کے مجھے بھی بتائیں کہ یہ بات سنی سنائی ہےیا انہوں نے ڈبلیو ایچ او  سےتصدیق کے بعد آپ کو میسج کیا ہے- غرض نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی وہ اس میسج کے منبع کو ڈھونڈ رہے ہیں جو تصدیق کر سکے- بہتر سال کے یہ صاحب ویکسین کے خلاف کچھ ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ کہتے ہیں ویکسین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے ۔

بھئی بہتر سال کی عمر میں شاید یہ صلاحیت خود ہی معدوم ہو جاتی ہے اور اگر مان بھی لیا جائے تو بڑھاپے میں انسان آئے مغل اعظم کو سنبھالے گا یا اس بڑھاپے کو جو اسے گھٹنوں پہ لے آیا ہے- اس افواہ کو سنانے والے جب دیکھتا ہوں کہ عمر کے اس حصے میں فکر مند ہیں جہاں اب آخرت کی فکر ہونی چاہیئے تو بال کھینچتا  ہوں-
ایک ہومیو ڈاکٹر صاحب ہیں کہنے لگے یہ کرونا ایک ڈھونگ ہے۔

ڈاکٹر صاحب جو مریض نا قابل علاج ہو میرے پاس بھیج دیا کریں۔ اب ان دیواروں سے ٹکر کون مارے کہ جن کی دانش ہر مسئلہ میں ایک سازشی  تھیوری نکال لیتی ہے۔ ویسے بھی سو کالڈ اپنے آپ میں عقل کل یہ طبقہ  ہر مسئلہ کی توجیہہ کچھ ایسے ہی نکالتا ہے کسی نے کہا سردار جی پٹرول مہنگا ہو گیا ہے کہنے لگےہمیں کیا ہم کل بھی سو روپے کا پٹرول ڈلواتے تھے آج بھی سو روپے کا ڈلواتے ہیں۔


 صاحب کی عجب منطق ہے کہ ماسک کی عادت نہیں اس  کے پہننے سے پسینہ اور الجھن ہوتی ہے  سو حل یہی ہے کہ نہ پہننا جائے اور یونہی گھوما جائے۔ ہمسایہ ملک میں کرونا نہیں ہے ایک عذاب الہی ہے جو ان کے کرتوتوں سے ان پہ ٹوٹ رہا ہے اور ہم اس تباہی پہ خوش ہیں کہ ظلم ڈھانے والے کو تباہی کے راستے کے لئے چن لیا گیا ہے۔ اب کوئی رحم نہ کرے اور اسے تباہ ہونے دیا جائے۔

سعودی  عرب نے80 میٹرک ٹن مائع  آکسیجن  بھارت کو بھیجی ہے اس پہ بھی جز بز ہیں۔ میں حیران ہوں اس انتہا پسندی کی سوچ پہ  سعودی عرب کے اپنے تعلقات ہیں بھارت سے لیکن وہ ہیں کہ چاہتے ہیں کہ وہ دونوں ممالک ان کی منشا ء کے مطابق اپنے تعلقات نبھائیں۔ صاحب کلمہ گو ہیں اور مجھ سے اچھے مسلمان ہیں ۔ نبی آخرالزماںﷺ کے عاشق بھی ہیں لیکن نہ جانے کیوں اپنے نبی پاک کی سنت اور صلہ رحمی سے کچھ دور ہیں۔

میں انہیں اکثر کہتا ہوں کہ عرفات کے میدان میں دیا گیا آخری خطبہ  ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہے کہ دین مکمل ہو گیا ۔ جس میں آپؐ کہتے ہیں کہ تمہاری اتباع کے لئے قرآن مجید اور  اپنی زندگی چھوڑے جا  رہا ہوں ۔ اگر وہ آپؐ کی زندگی سے ہی سبق سیکھ لیں۔ فتح مکہ کے موقع پہ عفو و در گزر دیکھ لیں۔بچے ، بوڑھے، عورت اور مکان و حرم میں پناہ لینے کے ساتھ ساتھ بیمار  کے لئے بھی مکمل معافی تھی۔

طائف کے پہاڑوں کو ٹکرا کے وادی کو تباہ کر دینے کے لئے تیار  فرشتے کو حکم تھا کہ  وہ تباہی نہیں چاہتے بلکہ رب سے ان مکینوں کے لئے ہدایت چاہتے ہیں۔  یہ  ہی ان چند اوصاف میں سے ایک ہے جو انسان کو فرشتوں سے افضل اور  اشرف المخلوقات کے خطاب سے ممتاز بناتا ہے۔  شاید موت کا فرشتہ تو ہے لیکن موت کا انسان مقرر نہیں کیا گیا۔ سر مارنے اور پھانسی چڑھانے سے پہلے بھی صحت مندی  شرط ہے ۔

رب کے گھر میں کہاں ہدایت کی کمی ہے۔ کل شاید ایسا ہو کہ
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانےسے
ملک بھارت میں مسلمان بھی کروڑوں میں بستے ہیں۔ ہمسائے کو ایک آفت کا سامنا ہے۔ ہسپتال کم اور میت جلانے کے لئے شمشان گھاٹ نہ دارد کے مصداق سڑکوں پہ پڑے کرونا کے مریض ہی شاید ہمیں سنجیدگی پہ مجبور کر دیں کہ آج کی احتیاط شاید کام آ جائے- سماجی فاصلہ ۔

ہاتھوں کو بار بار دھونا اور ماسک کا استعمال وہ چند عوامل ہیں جن سے وہ پرہیز جنم لیتا ہے جو ہمارے دین کا حصہ اور علاج سے  بہتر گردانا گیا عمل ہے۔  مجھے تو نہ حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے نہ عوام وگرنہ ہم اپنی عوام کو  جتنا وقت  ملا  اس میں ویکسین دے سکتے تھے لیکن ہم نے ایک فیصد سے بھی کم عوام کو یہ سہولت دی جب کہ سری لنکا کے پانچ فیصدی اور بنگلہ دیش کے چار اعشاریہ پانچ فیصد لوگ اپنی ویکسینیشن مکمل کر چکے ہیں۔

ہم ہیں کہ ابھی بھی اس کالی مرچ اور پیاز کے پیچھے ہیں اگر یہ اتنا ہی مجرب نسخہ ہے تو بھارتی خود کیوں نہیں کالی مرچ اور پیاز سے اپنے ملک کو کرونا فری بنا لیتے ۔ دنیا جو روز نئے تجربات میں لگی ہے اسے بھی سکوں کا سانس حاصل ہو۔ خدارا سوچ کو سنجیدہ کیجئے اور سنجیدگی سے سوچئے  بات پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیجئے کہ دنیا پہ یہ آئی آفت آپ اور آپ کے اپنوں کے لئے  جان لیوا ثابت نہ ہو۔ سماجی فاصلہ رکھیئے۔ ہاتھ دھوئیے اور ماسک کا استعمال کیجئے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :