پھر قسمتوں کا فیصلہ ہے مفلسوں کے ہاتھ

جمعہ 21 مئی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

چینی پہ سبسٹڈی اور کبھی ٹیکس کی بچت میں ٹیکہ لگانے واے آج عوام کا سر پھوڑتی مہنگائی پہ اشکبار ہوئے ایسے اکٹھے ہوئے ہیں کہ جوالہ مکھی بنے سب کچھ جلا دینے کے درپے ہیں ۔ ملک مافیاز کے رحم و کرم پر ہے۔ جس پہ ہاتھ ڈالو اس کے اندر سے کچھ ایسا ہی برآمد ہوتا ہے جیسے بند برتن سے ڈھکنا اٹھانے کے بعد کی کیفیت ہوتی ہے۔ ہر شعبہء زندگی سے منسلک یہ پریشر گروپس ہر پوچھ پرتیت پہ سڑکوں پہ نکل آنے کو تیار ہیں۔

شاہ سے لے کےنچلے طبقے تک ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے کیوں پوچھا جا رہا ہے اور دوسروں پہ رحم و کرم کی نوازشیں کیوں ہیں۔ ملک میں کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں  شوگر ملز کی منتقلی اور کپاس  کی فصل ،نئے بیجوں  کے لئے تگ و دو سے پہلو تہی۔ کسان کے گنے کی کم قیمت اور شوگر ملز کے باہر کھڑی ٹرالیاں۔

(جاری ہے)

وقت پہ پیسے کی ادائیگی میں آئیں بائیں شائیں  سب کسان سے دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔

چینی کے بحران میں سب   اشارے جب  ان  بڑے گھروں  تک جاتے ہیں تو   ایسے میں کوئی نظام کا حصہ کیسے رہے ۔ بڑے گھروں کے بڑے لوگ  جو سمجھتے ہیں کہ حکومتی بقا ان کی مرہون منت ہے تو پھر وہ  اس حکومت میں اپنے  اوپرالزامات  کی تفتیش کرتے ادارے اور ہوئی تفتیش  کو عوامی ہوتے کب دیکھ سکتے ہیں۔  شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی طرح ایک دفعہ پھر غریب بہانہ اور کوئی دوسرا نشانہ ہے ۔

جب جب ملکی اشرافیہ پہ سختی اور جواب دہی کا مرحلہ آیا ہے تو وہ سیاسی وابستگی اور اپنے ماضی سے لا تعلق ہو کے یوں روئی ہے کہ اسے غریب کے دامن سے آنسو پوچھتے ہی سکوں میسر ہوا ہے ۔ جلد ہی راولپنڈی رنگ روڈ والے بھی غریبوں کو لوٹ کے ، اپنی خلائی زمینوں کی فائلیں بیچ کے مفلسوں کے درد میں روتے عوام کو تیار ملیں گے ۔  وگرنہ چنداں ضرورت نہ تھی اس پریس کانفرنس کی جو وزیر موصوف نے کی ۔

  چور کی داڑھی میں تنکے  کے مصداق اس شور و غوغا کی ۔ ہوتی انکوائری  میں خود شریک ہوتے اور خود بھی سرخرو ہوکے سب کو سرخرو کرتے مگریہ کہانی آج کی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے ۔ یہ روتی دھوتی اشرافیہ اپنے لئے راستے نکالتی اور بے بسوں کو بے چارگی کی کھائیوں میں دھکیلتی ہمیشہ سرفراز رہی ہے ۔ کرپشن کے حق میں ہم خیال گروپ بننا اسی کا ہی ایک شاخسانہ ہے کہ شاید اس دفعہ کوئی جھکا نہیں لیکن جو جھکا نہیں کل وہ بھی جہازوں پہ لائے جانے والوں کے گلے میں وفاداری کے دوپٹے ڈالتا بہت خوش تھا ۔

اسے معلوم نہ تھا کہ جہازوں کے سوار بھی کبھی کسی کے ہوئے ہیں ۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ ان موسمی پرندوں پہ بھروسہ کل ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہو گا ۔ ہر لمحے ہر موقع پہ بلیک میل کرتے ان ڈبوں نے کبھی انجن کو اپنی منزل کی طرف چلنے ہی نہیں دیا ۔ انجن کے ڈبوں نے اپنے رستے خود بنائے اور کرپشن کے وہ طریقے اپنائے کہ سب نے کانوں کو ہاتھ لگائے  اورپہلے کو ہی بھلا جانا ۔

بات زلفی بخاری کی ہو یا ندیم بابر کی ۔ دوائیوں کے مافیا پہ انگلی اٹھاؤں یا گندم سے مال بنانے والوں پہ ۔ سب ہی تو انجن کے ساتھ نشست پہ بیٹھے اپنی اپنی دیہاڑیاں لگاتے پائے گئے ہیں ۔ ان سب کے دکھانے کے دانت اور کھانے والے دانت یکسر مختلف تھے ۔ خان صاحب کے کندھے سے کندھا ملائے گلے میں سرخ و سبز پٹہ ڈالے سب نے ہی تو خان صاحب سے احتساب کا عمل ان سے شروع کرنے کا اختیار دیا تھا لیکن جب ذرا بات شروع ہوئی تو ایوان میں الگ سیٹوں پہ بیٹھنے کا الگ گروپ ہی بنا لیا  ۔

غریبوں  کے درد کا چولا پہنا  اور ماتم شروع کر دیا۔ سونے کے باتھ رومز میں رفع حاجت  کے مزے اڑانے والے جب  ملک میں مہنگائی اور  نچلے طبقے کی زبوں حالی پہ گریہ زاری کرتے ہیں تو مجھے  یقین ہی نہیں آتا کہ اے انسان تیرے کتنے چہرے ۔ اگر میں بات کروں اس کی جسے تاریخ فاروق اکبر لکھتی ہے تو   اسےسر کے نیچے اینٹ  رکھے۔ درخت کے سائے میں لیٹا پاؤں ۔

کب سے ہم مانگے کے تیل اور ادھار کے پیسے سے ملک چلاتے اور  کھاتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ کے ملے چاول یوں تضحیک  کا نشانہ بنائے گئے ہیں کہ جیسے خود داری کے مجسمےپہلی دفعہ  کاسہ لیس ہوئے ہیں۔ ملے قرض سے اورنج ٹرین کی طرح کے لہو چوسنے  والے منصوبے لگانے والے ملک میں جب بے روز گاری کا رونا روتے ہیں تو مضحکہ خیز اور مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔

جس ملک میں سرینہ سے زرینہ ۔ سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور یہ ہیں وہ ذرائع کہتے ہوئے قطری خط  پیش کرنے کا رواج ہو ان کے زیر سایہ ایسے ہی سیاست دان تربیت پا سکتے ہیں کہ جن کا شعار ہو کہ "وچوں وچوں کھائی جاؤ اتوں رولا پائی جاؤ" اور ماشاء اللہ وزیر اعظم صاحب نے ایسے ہی ڈبے اپنے انجن کے لئے چنے تھے تو اب منزل کی تمنا میں بھٹکتے پھرنا ہی  شاید ان کا مقدر ہے کیونکہ اپنے مفاد کے لئے جڑے ایسے  ہاتھ پاؤں مارتے انجن کو چلنے کے لئے ایندھن کیونکر مہیا کریں گے۔

وزیر اعظم کی مقبولیت  میں کمی  کا سلسلہ سانحہ ساہیوال کے شہداء کی آہوں سے شروع ہوا  تو  پھر تھما نہیں رکا نہیں ۔ سب کے رنگ اترتے گئے اور بھیانک چہرے سامنے آتے گئے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ لائے جانے والی لانڈری میں دھوئے تو گئے تھے لیکن حمام میں ننگے ہوئے تو یوں ننگے ہوتے ہی گئے کہ پھر دوبارہ کپڑے بھی نہ ملے ۔ اب غریبوں سے تن ڈھانپنے کو لیڑا لتہ مانگتے ان کی ہمدردیوں میں چینختے چلاتے مگر مچھ کے آنسو بہاتے غرباء کو رام کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں  لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا  وہ پھر عوام کی نظر التفات کے مستحق ٹھہریں گے یہ فیصلہ کل اسی لاچار عوام کو کرنا ہے ۔

کبھی کبھار کی بریانی کی دلدادہ عوام کیا پھر اسی سوراخ سے ڈسی جائے گی جس سے وہ دہائیوں سے ڈسی جا رہی ہے ۔ شاید یہ عوام بھی اس زہر کو ہی تریاق سمجھتی یوں عادی ہو چکی ہے کہ اسے بھی نشہ اسی زہر کا ہی چاہیئے جس کا اظہار ایک دفعہ یوں کیا  گیا تھا کہ ان کی پارٹی کے سربراہ ایک نشہ ہیں اور ان کی اطاعت عین عبادت ہے۔ ملک کی اکثریت کا جو فیصلہ ہو سب کو اس کے ساتھ چلنا ہے۔

سوچ بدلنے کے لئے بکے قلم اور چہرے کل کی سوچ کو کیا رخ دیں میں یہ تو نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں  کہ ہمدردی کے چند الفاظ سے لبھائے جانے والے عوام اب قابل رحم ہیں خدارا بار بار ان کو مشق ستم  بنانے کی بجائے کبھی ان کا بھلا بھی سوچئے کیونکہ اس میں کس کو شک ہے کہ ایک روزحساب بھی ہے اور اس ظلم کی سزا بھی ۔ اپنے لوگوں اور پڑھنے سننے والوں کو  مجھے تو فقط یہ کہنا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :