جلادوں سے نجات پائیے

پیر 31 مئی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

صبح ،صبح ہی آج سوشل میڈیا پہ خبر گرم ہے کہ لاہور کے کسی نجی ہسپتال میں کسی عورت کی موت واقع ہوئی اور اب ہر طرف  سے ڈاکٹر حضرات پہ قصائی  اور جلاد ہونے کے خطابات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہے- میں بھی اس سوچ میں غرق ہوں کہ یہ بنائے مقتل خانے بند کر دیئے جائیں اوراس دارِ فانی جہاں ظلم کا بازار گرم ہے اسے ٹھندا کر دیا جائے۔

ویسے بھی ملکی حکماء اور ہومیو پیتھی کے شعبہ جات سرکاری طور پہ ہر جگہ کھلے ہیں مریضوں کی جان ان کے کے ہاتھ دے دی جائے – ویسے تو یہ جان اس رب کی امانت ہے لیکن شاید اس ملک میں جان لینے اور دینے کا معاملہ ان جلادوں کے ہاتھ ہے اور مشیت ایزدی کا اس میں  کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس سے شہر شہر کھلے میڈیکل کالجز بھی بند ہوں گے اور لوگوں  میں بھی جینے کی آس  بھی بندھے گی۔

(جاری ہے)

میرے شہر میں بھی آئے دن شیشے ٹوٹتے ہیں اور ڈاکٹر صاحبان تھپڑ کھاتے  پناہ مانگتے ہیں۔ مجھے دنیا میں کوئی جراحی کے میداں  کا ایک آپریشن دکھا دیجئے کہ جس میں پیچیدگی یا زندگی موت کا خطرہ موجود نہ ہو۔ یہاں تو ایک لگایا ٹیکہ بھی ری ایکشن کر سکتا ہے اور موت کا سبب بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ خطرات موجود ہیں لیکن میرے ملک میں ہر پیچیدگی یا موت کا ذمہ دار اور مبینہ قاتل صرف ڈاکٹر ہی کیوں۔

ایسی کسی صورت حال میں اس ڈاکٹر صاحب کے لئے بلیک میلنگ  کا شروع یہ سلسلہ پھر معافی تلافی اور دے دلا کے ہی ختم کیوں ہوتا ہے۔ ملکی قوانین یوں بنائے گئے ہیں کہ اگر اسے قانونی طور پہ حل کئے جانے کی طرف  قدم بڑھایا جائے تو وہ سست روی کا شکار سالوں کے سفر پہ محیط ہے-اس ملک میں اتائیوں کی بھر مار ہے حکومت انہیں تو بند نہ کروا سکی لیکن ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ نبٹنے کا ایک ادارہ قائم ہے جس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

روز بروز کے مسائل سے دو چار ڈاکٹر حضرات کا بیرون ملک خاموش انخلاء جاری ہے جہاں تنخواہ بھی بہتر ہے اور وہاں جلاد کے خطابات کے ساتھ ساتھ بلیک میلنگ  و تھپڑ نوازی سے بھی چھٹکارا ہے۔ ملک میں جو ڈاکٹر صاحبان موجود ہیں ان میں سے بھی کم و بیشتر ایک موقع کی تلاش میں ہیں کہ وہ بھی اگر روشنی کی کرن دیکھیں تو اڑ جائیں۔ہمارے ملک میں شاید طب کا شعبہ ایسا ہے کہ جس کا میرٹ سب سے زیادہ ہے- ایک لمبی پڑھائی کے بعد بھی کوئی حکومتی جاب سٹرکچر ایسا نہیں ہے کہ  نئے ڈاکٹر کو ذہنی سکون دے سکے۔

کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ایک پیسہ بنانے کی مشین ہے ملک  کے اگر امراء کی لسٹ نکالی جائے تو شاید ہی کسی شہر کا کوئی ڈاکٹر پہلے دس دولت مندوں کی فہرست میں  آتا ہولیکن وہ معاشرتی محرومیوں میں سب سے زیادہ "سوفٹ ٹارگٹ" ہے جس پہ ہر سرکاری ادارے کا ملازم ،صاحب ہے کہ اگر اسے اہمیت نہیں دی گئی تو باہر نکل کے ایسے مسائل اور فائلوں میں الجھائے گا کہ پھر دفاتر کے چکر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔

یہی لوگ دروزے کے باہر کھڑے ملازم کہ جس کام سب کو نمبر کے تحت بھیجنے کا کام سونپا گیا ہےاس کی دسترس  سے مبراء ہیں۔ ڈاکٹر کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ وہ تین گھنٹے میں سو سے زائد مریض بھی بھگتائے گا اور ہر اس کال کا بھی جواب دے گا جو کسی سفارشی کا حکم لئے ہوئے ہے۔ مجھے بیرونِ ملک کافی عرصہ کام کرنے کا اتفاق ہوا جہاں پہ اگر تین گھنٹے میں دس سے زیادہ مریض دیکھنے کا  کڑا امتحان آ جائے تو ہر طرف ایک شور و غوغا ہوتا ہے کہ کیا وجوہات تھیں کہ اتنے مریض بیرونی شعبہ مریضاں میں لائے گئے اور نظام کہاں پہ فیل ہوا۔

ہسپتال میں اگر مریض کے داخلے کا بستر میسر نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار ڈاکٹر نہیں ہے۔لیکن یہاں تو اگر باتھ روم صاف نہیں ہے تو  بات ڈاکٹر کے گریبان تک پہنچتی ہے- آکسیجن کی کمی کی صورت میں ڈاکٹر کو مریض چھوڑ کے بھاگنا  پڑتا ہے۔ جعلی ادویات کا معاملہ آ جائے تو  ہوئی تحقیق میں ڈاکٹر دھر لیا جاتا ہےاور نہ خریدنے والے سرکاری ادارے پہ حرف آتا ہے اور نہ ہی اس دوائی کی کمپنی کا قصور نکلتا ہے- ڈاکٹر حضرات پہ اگر دوائی کی کمپنی سے مال بنانے کے لئے الزام لگایا جاتا ہے تو کیوں اس دوائی کی کمپنی پہ  پابندی نہیں لگتی جو اپنے  میڈیکل ریپریزنٹیٹو کی ایک فوج بھرتی کئے ہوئے کلینکس پہ بھیجتی ہے اور رشوت کا بازار سجاتی ہے- مجھے کوئی عار نہیں ہے ان  ڈاکٹر زکی مذمت کرنے میں جو اس کھیل کا حصہ بنتے ہیں- ہر محکمہ میں کالی بھیڑیں ہیں لیکن نظام کوئی نہیں۔

لوگ یہاں تک بتا دیتے ہیں کہ کس ڈاکٹر کو کتنا حصہ اور کس ٹیکے پہ اضافی ٹیکوں کا لالچ دیا  گیا ہے لیکن اس کمپنی پہ لگی پابندی اور بیخ کنی آج تک نہیں دیکھی۔کتنی دوائی اسمگل ہو کے کہاں کہاں پہنچتی ہے سب نے آنکھوں پہ پٹی باندھی ہوئی ہے کیونکہ یہ حصہ اور گھناؤنا کاروبار ہر سطح پہ اپنا جال بچھائے ہوئے ہے۔ جو ڈاکٹر اس جال میں نہیں پھنستا پھر اس پہ کیا کیا الزام لگتے ہیں  اور اس کا کل  کیسے تاریک ہوتا ہے کاش اس سے بھی بچنے کا کوئی طریقہ وضع ہو تو سب کی جان چھوٹے۔

ملک میں موجود غیر سرکاری ہسپتال کا نظم و نسق حکومت پاکستان سنبھالے اور ہسپتال کے اخراجات برداشت کرے اور ڈاکٹرز کو تنخواہ دے ۔ اس سے بلند و بالا فیس لینے والے ہسپتال بھی ریگولیٹ ہوں گے اور سرکار کو بھی نئے ہسپتال بنانے نہیں پڑیں گے ۔
کوئی ڈاکٹر میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل  ہونے کے بعد اور معاشرے میں آنے سے پہلے کرپٹ نہیں ہوتا اسے یہ معاشرہ سب کچھ سکھاتا ہے اور مال بنانے کے طریقے سمجھاتا ہے -ملک میں ڈاکٹرز کی ٹریننگ کس زبوں حالی کا شکار ہے کبھی اس پہ بھی غور ہوا ہے۔

سرکاری ڈاکٹرز کی ہسپتال سے باہر پریکٹس پہ پابندی کا قانون تو ہے لیکن ہے کوئی جو اس پہ عمل بھی کروا سکے۔ ڈاکٹر حضرات بھی جب  اس مافیا کا حصہ بنتے ہیں تو  ان کے لئے نظام بھی نرمی برتتتا  سہولت کار بنتا  اسے  سلطان کی اس نشست پہ براجمان ہونے کے مواقع مہیا کرتا ہے کہ وہ پھر ہاتھ کا بندہ بنا اس مافیا میں کھیلتا اور ترقیاں پاتا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پلیٹلٹس کے کھیل میں شامل ڈاکٹر صاحبان کیوں اب تک قانون سے بچے ہوئے اعلیٰ عہدوں پہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

اگر ملک میں اس مافیا کی کمر توڑنی ہے تو ملکی اداروں کو فعال ہونا ہوگا اور ڈاکٹرز کے ساتھ اس  سیڑھی کو بھی کھینچنا ہو گا جس کے ہر قدم کے ساتھ کرم نوازیاں چمٹی ہوئی ہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ کل ڈاکٹر برادری کا شاید ایک فیصدی بھی نہ ہوں  لیکن ان کی گرفت یوں مضبوط ہے کہ ان کی اشیر باد کے بغیر کسی ڈاکٹر کے مستقبل کا دروازہ نہیں کھلتا-میرا یہ کہنا ہے کہ   ڈاکٹر کی تعداد بڑھائی جائے اور باہر جانے والے ڈاکٹر ز کے کام کرنے کے ماحول کو درست کیا جائے ۔ اس کے لئے سروس اسٹرکچر  مہیا  کیا جائے  اورعام ڈاکٹر کی سرکاری ہسپتال میں مار پیٹ سے پہلے اس مافیا کو ختم کیا جائے تو یہ صحت کا نظام بہتر ہو سکے گا وگرنہ عام ڈاکٹر کب تک تھپڑ کھائے گا اور گال سہلائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :