شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

بدھ 30 جون 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

ماں کی محبت کی گہرائیوں سے کون واقف نہیں ۔ یہ ایک وسیع سمندر ہے۔  لیکن ہمارا خالق ہم سے ایک ماں کے مقابلے میں  70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے ۔ اسی محبت کے ناطے  اس نے ہمارے لئے خصوصی بندوبست کئے۔ ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ (صرف ایک لمحہ کو سوچیں کہ اگر ہم خدانخواستہ خدانخواستہ کسی مشرک گھرانے میں پیدا ہوتے تو ہمارا کیا حشر ہونا تھا۔

)
اس کی دی ہوئی استطاعت سے ہمارے والدین نے ہماری اخلاقی، دینی اور دنیاوی تعلیم کا بندوبست کیا۔ مولوی صاحب نے بلکہ بعض دوستوں کو تو  محلہ کی استانی جی نے قرآن کریم پڑھایا (جو ویسے تو دن بھر محلہ میں لگائی بجھائی میں لگی رہتی تھیں،)  ان سے مار بھی کھائ لیکن قاعدہ  بھی پڑھا اور قرآن کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

(جاری ہے)

  اٹھ آٹھ آنے کی اردو کتابوں , نونہال اور تعلیم و تربیت جیسے رسالوں سے اسلامی کہانیاں پڑھیں ۔

اس کے جواب میں ہم نے ان کو کیا واپس لوٹایا۔ مولویوں اور اردو میڈیم کا مزاق۔
دوسری جانب غور کریں تو  کسی کی کہی ہوئی ایک بات، اخبار کی ایک خبر، کوئ نظر سے گزرتا ہوا اشتہار، کوئ ٹیلیفون کال، عیدی میں ملے ہوئے چند روپے، تحفہ میں ملی ہوئی کہانی کی کتاب ، استاد کا چانٹا اور بہت سی ایسی ہی معمولی معمولی باتیں جن کی وجہ سے ہماری زندگی کا رخ بدل گیا لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

یہ کس نے کیا ، یہ کیسے ہوا۔؟ جیسے ٹرین کی پٹڑی پر کانٹا بدلتا ہے اور گاڑی کسی اور سمت میں چلی جاتی ہے۔
ہم نے پڑھا لکھا۔ شادی بیاہ ، فیملی ، عملی زندگی ، کیریئر۔ غیر جانبداری سے دیکھیں تو اس میں ہمارا کتنا حصہ ہے جو ہم سنبھالے نہیں جارہے۔ ہماری گردنوں میں سریا فٹ ہو چکا ہے۔جن کامیابیوں کا دعوی آج ہم کرتے  ہیں ، کیا یہ ہم نے سب کچھ خود کیا ہے؟ جناب لوگوں کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں تاریکی سے روشنی میں لایا،  اور خود اب ماضی کا افسانہ بن چکا ہے
ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں کلہاڑیاں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

آج سوچیں کہ اگر ایک  کلہاڑی بھی صحیح بیٹھتی تو ہمارا کیا حال ہوتا۔ غور و فکر کریں تو ہمیں احساس ہو گا کہ پروردگار نے ہم جیسے نکموں کے لئے خصوصی فرشتے مقرر کئے ہونگے جو ہمیں بچاتے بچاتے تھک چکے ہونگے۔
یہ اس کی ہم سے محبت ہے ۔ وہ ہم سے ماں کے مقابلے میں ستر گنا محبت کرتا ہے۔ اس محبت کا تقاضہ ہےکہ ہم خود سے اور اس کی مخلوق سے محبت کریں۔

محبت نہیں کر سکتے تو کم از کم  کسی کا دل نہ دکھائیں ، غیبت نہ کریں ، مزاق نہ اڑائیں ، کمنٹ نہ پاس کریں، فتویٰ نہ دیں۔ جواب ہم ہی کو دیناہے۔۔ پیش ہمیں اسی کے سامنے ہونا ہے ۔ وہ تمام لوگ جن کو ہم نے کسی بھی حوالے سے
اپنی تنقید کا نشانہ بنایاہے، ان کے کام کی آ ڑ میں ان کی ذات اور فیملی والوں کو نشانہ بنایا ہے۔
وہ بھی مدعی ہونگے ،  انصاف کے متقاضی ہونگے۔

آ ج ہم منصف بنے بیٹھے ہیں ، کل ہم انصاف کے ترازو میں تولے جارہے ہونگے۔ ہماری نیکیاں اگر کچھ ہیں ، ان کے حساب میں ڈالی جارہی ہونگی ، جن کو ہم نے اس دنیا میں حقارت اور ذاتی بغض کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
ہم پیش ہونگے اپنے سیاہ اعمال نامے کے ساتھ۔ یہ نامہ اعمال اگر آج کھول دیا جائے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں ۔ لوگوں کے اعمال ہم کس حیثیت سے ترازو میں تولتے ہیں ۔ ہماری کیا اوقات ہے۔ ایک لمحے کے لئے سوچ لیں۔
اس سے پہلے کہ کوچ کا نقارہ بجے ہمیں سفر کی تیاری کر لینی چاہئے۔
شائد کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات
کہا سنا معاف دعاؤں میں یاد رکھیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :