میں کہ ایک انجینئر ہوں

ہفتہ 10 جولائی 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

تم بڑے ہو کر کیا بنوگے انجینئر یا ڈاکٹر;; یہ ایک ایسا سوال ہے جو وطنِ عزیز میں طلباء سے یا نوجوانوں سے کم وبیش ہر جگہ کیا جاتا ہے، یا یہ سوال طلباء اور نوجوان خود سے اکژ و بیشتر کرتے رہتے ہیں ۔ اسکے پیچھے کیا نفسیات ہے، اور صرف ان ہی دو پیشوں پر کیوں نظرِ انتخاب ٹھیرتی ہے۔اس کی و جہ کم و بیش ہم سب ہی جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں میرے وقت میں بھی اور ا ب بھی یہ دو پیشے ایسے ہیں جن سے وابسطہ لوگوں کا مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔

ایک طرح سے یہ پیشے ایک تو بہت معزز ہیں اور دوسرے عمر بھر کے وظیفہ کی ضمانت دیتے ہیں ۔ متوسط طبقے کے نوکری پیشہ لوگ میز کرسی کا کام پسند کرتے ہیں اور معاشرہ میں ایک بہتر مقام پر رہنا چاہتے ہیں ، ان دونوں پیشوں کو پسند کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)


اس کے علاوہ ہ میں یہ بتایا اور سمجھایاگیا تھا کہ اگر آپ مقتدر طبقوں مثلاً جاگیرداروں ، وڈیروں ، بزنس مین ، سیاستدان، سول سرونٹ اور فوجیوں میں شامل نہیں ہو سکتے تو آسان زندگی گذارنے کے لئے انجینئر یا ڈاکٹر بننا ہی محفوظ راستہ ہے ۔

بعد میں اس میں ایم بی اے اور کمپیوٹر والے لوگ بھی شامل ہو گئے ۔
وطنِ عزیز میں اس زمانہ میں ان دو پیشوں کے علاوہ دیگر پیشوں میں بوجوہ لو گوں کی دلچسپی کم تھی اور اب بھی کم و بیش ایساہی ہے ۔ مثلاً سائنس میں وہ لوگ جاتے ہیں جو زیادہ ذہین سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد والے کامرس میں چلے جاتے ہیں ۔ جو کچھ نہیں کر پاتے وہ آرٹس میں چلے جاتے ہیں ۔

جن کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوتا وہ رگٹے رگڑاتے لاء پڑھ لیتے ہیں ۔ جن کا تعلیمی معیار بالکل گیا گزرا ہوتا ہے وہ میٹرک کے بعد یا انٹر میں بہت کم سکور کرنے کے بعد کسی ٹریڈ میں چلے جاتے ہیں ، اور سوسائٹی کے معیار سے "بیچارے"مکینک یا ٹیکنیشن بن جاتے ہیں اور یوں ںسوسا ئٹی کی گاڑی چلتی رہتی ہے ۔
نفسیات، سوشل ورک، صحافت، لٹریچر، وغیرہ کی بھی کچھ اہمیت نہ تھی، ہاں اگرکچھ اہمیت تھی تو انگلش لٹریچر کی تھی ۔

انٹر نیشنل ریلیشنز بھی اچھا مضمون سمجھا جاتا تھا ۔ نفسیات پڑھنے والے حود ذہنی مریض سمجھے جاتے تھے اور سوشل ورک اونچے طبقے کی خواتین کا من پسند مشغلہ تھا، جن کی وساطت سے وہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں فنکشن کر سکتی تھیں ، اخباروں میں تصویر چھپوا سکتی تھی، یا چندے اکٹھا کر سکتی تھیں ۔
طالب علمی کے زمانے میں میرے سامنے بھی یہی سوال تھا ۔

ڈاکٹر بننا میرے بس میں نہ تھا کہ مجھے شروع سے ہی کاکروچ کی چیر پھاڑ اور خون سے الجھن سی ہوتی تھی ۔ ڈرائنگ سے میری فطری دلچسپی تھی، ا سلئے میں نے اپنے بارے میں خودہی فیصلہ دے دیا تھا کہ میرا طبعی رجحان انجینئرنگ کی طرف ہے ۔ انجینئرنگ کا راستہ بھی سیدھا تھا ۔ انٹر میں دوسال لگ کر محنت کریں ، اگر پڑھائی میں کمی محسوس ہوتی ہے تو کوئی ٹیوشن کر لیں ، یا کسی اچھے کوچنگ سنٹر  میں داخلہ لے لیں ۔

اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں گے تو داخلہ پکا ۔ اور یوں میں نے انجینئرنگ کا راستہ اختیار کر لیا ۔
اس ماحول ، میں بطور طالب علم میری نشوونما ہوئی ۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے اعتبار سے وہ زمانہ اتنا ابتر نہیں تھا، جتنا آج کل ہے ۔ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں بزمِ طلباء ہوتی تھی، جس کے تحت ہر طرح کے ادبی پروگرام اور انٹر کالجئیٹ مقابلے ہو اکرتے تھے ۔

ایک ایسی ہی بزمِ طلباء ہم نے اپنے انجئنرنگ کالج میں بھی بنا لی تھی۔ ریڈیو پاکستان سے ہر سال ہفتۃ طلباء ہوتا تھا، جس میں تقریری مقابلے، مشاعرے، بیت بازی، اور مباحثے وغیرہ ہوا کرتے تھے، اور اس طرح طلباء کو ذہنی نشوونما کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔ کھیل اور سیاست بھی ہوتی تھی، گھر کے ماحول اور بزمِ طلباء کی سرگرمیوں کی وجہ سے کتا بوں سے کافی دلچسپی تھی ۔

اس قسم کے ماحول میں رہتے ہوئے اور کتابوں سے تعلق کی وجہ سے میرا اپنے بارے میں خیال تھا کہ میں معاشرے کی ناہمواریوں سے واقف ہوں ، مساوات کا قائل ہوں اور ہر ایک کے لئے انصاف کا علم بردار ہوں ۔ چونکہ خود کبھی بڑے امتحان سے گزرنا نہیں پڑا ، اسلئے یہ خیال زیادہ راسخ ہوتا رہا ۔
مجھے سکول اور کالج کے زمانے میں اس قسم کی کوئی تربیت نہیں ملی کہ میں خود کو ایک استحصالی کے طور پر دیکھ سکوں ۔

معاشرتی علوم یعنی سوکس کو سکول کالج میں بس نام کا ہی پڑھایا جاتا ہے انجینئرنگ کالج میں ا سکا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اسلئے مجھے معاشرہ کی الف بے سے بھی حقیقی واقفیت نہیں ہے ۔ نہ میرے خیال اس کی ضرور ت تھی کہ میں انجینرنگ جیسے معزز پیشے میں جارہا تھا اس کا عوام سے کیا تعلق ویسے بھی ایک نو آبادیاتی نظام کے نمایندہ کی حیثیت سے مجھے ایک اچھا مقام ملناتھا اور مجھے ایرے غیروں کو منہ نہیں لگانا تھا ۔


جبر، استبداد اور استحصال جیسے الفاظ صرف کتابوں اور سیاستدانوں کے بیانات سے منسوب تھے، جس کا وہ جلسوں اور اخباری بیانا ت میں بکثرت استعال کرتے تھے ۔ فیض صاحب اور حبیب جالب کی شاعری اس وقت فیشن میں تھی ۔ حقیقتاً میں فیض صاحب کی شاعری اور ان کی نثر خاص طور سے ان کی وہ تحریریں جو انہوں نے اپنی قید کے دوران جیل سے قلم بند کی تھیں ، میرے دل کے بہت قریب تھیں ۔


اس زمانے میں میری سوچ کچھ اس طرح تھی ۔
میرا استحقاق ہے کہ نوکر چاکر میرے ذاتی کام کریں ، گھر میں بھی دفتر میں بھی ۔ کمیونٹی سے رابطہ رکھنا میرا کام نہیں ہے ۔ رضاکارانہ کام بھی مرا دردِ سر نہیں ۔ آخر اتنے فلاحی ادارے ہیں چندہ لے رہے ہیں تو کام بھی کریں ۔ اتنے سارے اخبار اور ٹی وی چینل ہیں، مسائیل کے خلاف آواز اٹھانا ان کا کام ہے ۔

ویسے بھی میں کسی کے کام میں دخل نہیں دیتا اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ کوئی میرے کام میں دخل دے ۔ میں دوسروں کی حدود کا احترام کرنا چاہئے ۔
حکومتی اداروں کی کارکردگی صفر ہے ۔ اس لئے میں اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں کیوں پڑھاءوں ۔ سرکاری اسپتال میں کیوں جاءوں جب کہ شہر میں ایک سے ایک اچھا پر ائیویٹ ہسپتال موجود ہے کچھ پیسے ہی تو خرچ ہو جائیں گے، کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

محلہ میں صفائی ستھرائی اور چوری ڈاکہ کا ڈرا تھا، میں ایک ایسی سوساءٹی میں چلا گیا ہوں جہاں چاردیواری ہے ، گیٹ ہے چوکیدار ہے ۔ یہ میرا استحقا ق ہے بھائی ۔
بہرحال اب میں اتنا بھی بے حس نہیں ہوں کہ معاشرے سے بےخبر ہو جائوں ۔ میں معاشرے کے سدھار کے لئے اپنی محفلوں میں تجویزیں پیش کرتا رہتا ہوں ، اقتدار کے ایوانوں کے لتے لیتا رہنا ہوں ،( اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا ورنہ ہر طرح کی اچھی ای میل فارورڈ کرتارہتا) ۔

اس فضول سوسائٹی کے لئے اس سے زیادہ کیا کیا جاسکتا تھا ۔ دیگر شرفاء کی طرح میرے بھی ہاتھ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ہر جگہ کرپٹ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میں ایسا باغی نہیں ہوں کہ معاشرے سے اکیلا لڑ سکوں ۔
اب میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے پاکستان میں رہتے ہوئے خود کو معاشرہ سے الگ رکھا، خود اپنی سماجی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں لیکن ہر ایک کو بشمول حکومت، سیاستدان، میڈیا اور عوام کو ذمہ دار ٹھیراتا رہا، معاشرے کی خرابیاں بتاتا رہا، تنقید کرتا رہا، انہیں راستے بتاتا رہا کہ لیکن کبھی خود ا س پر چلنے کی کوشش نہیں کی ۔

کیوں ؟ یہ دوسروں کاکام ہے میں تو انجینئر ہوں انجینئر ۔ ایک معزز پیشہ سے وابسطہ اور ایک طبقاتی کشمکش کا شکار سوسائیٹی کا استحقاق یافتہ شخص ۔ مجھے کون پوچھ سکتا ہے ۔ میں سب کو اپنے علمیت کے زور پر خاموش کر سکتا ہوں ۔ مجھے بھاشن دینے میں بھی کمال حاصل ہے ۔
یہ ٰایک فطری سی بات ہے کہ جسے استحقاق حاصل ہو وہ اسے آسانی سے چھوڑتا نہیں ہے ۔

چھوڑنا تو درکنار بعض صورت میں قبول ہی نہیں کرتا کہ اسے استحقاق حاصل ہے ۔ خود پر تنقید کرناچاہے کتنی ہی مثبت کیوں نہ ہو آسان بات نہیں ہے اور اس کے لئے بڑا ظرف چاہئے ۔ میرے خیال ہے کہ ہ میں اس طرح تربیت دی گئی ہے کہ ہم اپنے استحقاق کا اعتراف نہ کریں ۔ یہ استحقاق ہے آخرکیا بلا ہے؟ میرے نزدیک استحقاق ایک ایسا سرمایہ جسے کمانے کے لئے کوئی زیادہ محنت نہیں کی گئی ، لیکن اسے روزانہ خرچ کرنے پر انحصار کیا جا سکتا ہے ۔

یہ ایک بغیر وزن کا بیگ ہے جس میں مراعات ہی مراعات بھری ہیں ۔
میں نے بھی کبھی اپنے استحقاق کو نہ قبول کیا اور نہ ہی خود کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا جب تک کہ میں کینیڈین سوسا ئٹی کا کل پرزہ نہیں بن گیا، سوشل ورک پڑھ نہیں لیا اور اسے بطور پروفیشن اختیار کر نہیں لیا ۔ سوشل ورک کی تعلیم نے مجھے اچھی طرح سکھا دیا کہ یہ سب کچھ وہی ہے جس کی تعلیم ہمارے مذہب نے دی ہے ۔

بطور سپورٹ کونسلر اور مینٹل ہیلتھ کونسلر مجھے انسانوں کو اور بطور خاص خود کو سمجھنے کا موقع ملا ۔
بطور شہری میں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی شروع کر دیں ۔ اپنے کام دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے کرنے شروع کر دئے ۔ چونکہ میں اپنے کچرے کے ڈبے ہر ہفتہ خود باہر رکھتا ہوں اسلئے میں شہری حکومت کو ٹائم پر کچرا نہ اٹھانے پر آڑے ہاتھوں لے سکتا ہوں ۔

میں اپنے تما م ذاتی اور دفتر کے کام خود سے انجام دیتا ہوں اسلئے محنت کشوں کا احترام ہے ۔ کسی ٹیکنیشن یا پلمبر سے کام کرانا ہو تو یہ کام ایک لائسنس یافتہ پیشہ ور ہی کرا سکتاہوں ۔ اس کے بل کو دیکھتے ہوئے مجھے ان کی سماجی حیثیت اور افادیت تسلیم کرنی پڑتی ہے ۔ بچوں نے سرکاری سکولوں میں پڑھا ہے، علاج سرکاری ہسپتال میں ہوتا ہے، اس لئے ان اداروں سے میرا براہ راست تعلق ہے ۔

میں ان کی کارکردگی پر میں آواز بلند کر سکتا ہوں اور انہیں سننی پڑتی ہے ۔ میرے حقوق ہیں لیکن میرے فراءض بھی ہیں ۔ میں اپنے فراءض ادا کئے بغیر نہ حقوق کی بات کر سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی کارکردگی پر بات کر سکتا ہوں ۔ چونکہ مجھے اچھی کارکردگی کے لئے حکومت میں اچھے نمایندے چاہئیں اس لئے الیکشن میں ووٹ ڈالنا اور صحیح لوگوں کو منتخب کرنا پنی اولین ذمہ داری سمجھتا ہوں ۔

کسی کو موردِ الزام ٹھیرانے سے پیشتر میں سب سے پہلے اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں اور اسکے لئے مجھے کسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اس بات کا قائیل ہوں کہ اگر میں کوئی عملی قدم اٹھا نہیں سکتا تو مجھے دوسروں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور انہیں مطعون کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
میں اپنی اس تحریر پر ہر طرح کے اختلافات اور بے لاگ تنقید کے لئے حاضر ہوں ۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ لوگوں کی مدد سے میں اپنی کچھ کمزوریوں پر قابو پا سکوں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :