چلیں اک قدم ہم بڑھائیں

منگل 27 اکتوبر 2020

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

شہر بھر میں یوں تو  لینڈ گریبر۔ جسم فروشی کے اڈے اور گٹکا فروش مافیاز کے خلاف کاغذی خانہ پری کرنے کے لئے کاروائی ہوتی رہتی ہے۔ اور میڈیا بھی ان کو اپنی حد تک کوریج دیتا ہے۔ لیکن کیا ان لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے؟ کیا رپورٹ میں اس حد تک کمزور شقیں نہیں ڈالی جاتی جس کے اس گناہ کے مرتکب افراد چند  روز ضمانت پر باہر آکر پھر اسی  مکروہ دھندے میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

۔۔ ضروری نہیں کے پولیس کے محکمہ میں تمام کے تمام افسران اور اہلکار اس غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوں تاہم پولیس میں موجود کالی بھیٹریں خود ان مجرموں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی۔۔ ہر خاص و عام کو خبر ہے کے کسی بھی غیر قانونی کاموں میں بڑی حد تک قانون کے رکھوالے ہی ملوث ہوکر قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔ شہر میں ہوٹلوں سے بھتہ طلب کرنے کے ساتھ  ساتھ ہوٹل مالکان سے مفت کھانا لے جانے کی روایت برسوں پرانی ہے۔

۔۔۔میڈیا کے باور کرانے پر افسران بالا خواب غفلت سے جاگ تو جاتے ہیں تاہم بعد میں وہ ہی اہلکاراپنا ٹرانسفر کروا کر دوسرے تھانے میں وہ ہی خدمات انجام دے رہا ہوتا ہے۔۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور سخت قانون کے  باوجود شہر میں گٹکا، ماوا اور انڈین تمباکوں کی فروخت جاری ہے جسے ہر باشعور شہری سمجھ سکتا ہے کے اس گھناوّنے کام میں کس کی سرپرستی حاصل ہے۔

یہاں اگر بات صرف مندرجہ بالا عوامل تک محدود رہتی تو شائد قلم کی جنبش یہیں رک جاتی تاہم اس معاملہ اس سے بڑھ کر ہمارے ان بچوں کا ہے جو قوم کے معمار ہیں جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ پاکستان بھر خاص کر شہر قائد میں گلی کوچوں میں شربت کے نام پر بچوں کے ذہر پلایا جا رہا ہے۔ گنے کے شربت میں کیمیکل ڈال کر ذائقہ دار اور میٹھا کر دیا جاتا ہے۔

دودھ کے ڈبے تک جعلی فروخت ہورہے ہیں۔ پلاسٹک کے چاول اس غریب عوام کو دھڑلے سے کھلائے جارہے ہیں، گٹر کے پانی سے تیار شدہ سبزیاں عوام کو کھلائی جا رہی ہیں۔۔۔  ظاہر ہے اس معاملات میں ملک کی اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے گھروں میں امپورٹ کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے بچے گلیوں میں پھرنے والے افراد سے جعلی ملاوٹ شدہ یا ایکسپائر آئسکریم نہیں کھاتے۔

۔ ان کے بچے کبھی سرکاری ہسپتال میں نہیں جاتے۔۔۔۔ تو ملک کے ایوانوں میں بیٹھے عوام کے نمائندوں کو اس بات کی قطعی فکر نہیں۔۔ یہ فکر ہم کو اور آپ کو کرنی ہے کے اپنے بچوں کو جیب خرچ دینے کے بجائے ان کو گھر میں تیار کردہ چیزیں کھلانے کی ترغیب دیں۔۔۔۔ متوسط افراد کا کل سرمایہ ان کی اولاد ہی ہوتی ہیں۔ ہم بازار سے سستا اور غیر معیاری کوکنگ آئل اور ہوٹل کا غیر معیاری کھانا کھانے سے اجتناب کریں تاکہ ہمارے قوم کے یہ مستقبل جوان ہونے کی عمر میں ضیفی کا شکار نا ہوں۔۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :