کورونا ویکسین۔،،، اور سرکاری ملازمین

جمعرات 17 جون 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

2019 کے آخری مہینوں میں چائنا کے شہر ووہان سے اٹھنے والی وباء نے پلک جھبپکتے ہی پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ شائد ہی کوئی ایسا ملک  ہوگا جہاں اس عالمی وباء سے ہلاکتیں نا ہوئی ہوں۔ یوں تو ہر شخص جان چکا  ہوگا کے  کرونا کیا ہے کیونکہ اس حوالے سے شائد ہی کوئی ایسا طبقہ ہوگا جس نے لب کشائی نا کی اور گذشتہ 2 سالوں سے اس عنوان پر ریسرچ اور تحریر کرنے والوں کی تعداد کا گراف سب سے اوپر رہا ہے،   تاہم  یاداشت تازہ رکھنے کے لئے بتاتے چلیں کے کرونا کی ہزاروں اقسام ہیں جو جانوروں کے ذریعے پھیلتی ہیں۔

ووہان سے اٹھنے والی اس وباء کوPandemic کا نام اسی لئے دیا گیا ہے کے یہ ایک عالمی وباء ہے۔ COVID جوکے CO کے معنی کوورنا، VI وائرس، D سے ڈزیز یعنی بیماری، اور چونکہ یہ بیماری 2019 کے دسمبر میں منظرعام پر آئی تھی اسی لئے اسے 19 کہا گیا گیا۔

(جاری ہے)

۔ جس کے بعد تمام دنیا لاک ڈاوّن کی طرف چلی گئی۔ ترقی یافتہ  ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پزیراور پسماندہ ممالک نے بھی چار و نا چار ایسے اقدامات اٹھائے جس سے متوسط اور غریب طبقہ کے ساتھ ساتھ پوش خاندانوں  کو بھی شدید بدحالی کا شکار ہونا پڑا۔

  پوری دنیا کا نظام تقریبآ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔۔ سفری پابندیوں کے باعث ہزاروں افراد پردیس میں پھسے رہے، کسی کا خاندان ادھر رہ گیا تو کسی کا باہر، یعنی کے پاکستان میں ایک طرح سے 73 سال بعد پاک و ہند کی تقسیم جیسے حالات دیکھنے کو ملے۔ دنیا بھر میں گئے سیاح اور ملازمت پیشہ افراد پھنس کر رہ گئے۔ ہوائی سفر نا ہونے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ایسے میں ائیرلائنز کمپنیوں نے اپنے خسارے کو بچانے کے لئے فضائی سفر میں 800 سے ہزار 1000 فیصد اضافہ کر کے عوام کے خون سے جوس نکال لیا جو تادم تحریر جاری ہے۔

کرونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے نیم حکیم، بابائے تعویزات، عامل کامل اور تو اور ڈاکٹرز حضرات بھی پیچھے نا رہے، انہوں نے مساج کے دوران  انسانی چہرے پر بھاپ دینے والی مشینوں سے کورنا کا علاج دھونڈ نکالا، کچھ سادھو اور جنتر منتر کرنے والوں نے دیسی کبوتر کے خون اور اس کے پوٹے میں کرونا کے علاج میں شفا رکھی۔

تاہم اس بڑھی ہوئی جعلی خبروں اور خوف ہو ہراس پھیلانے کے باعث  واٹس ایپ  کمپنی کو بھی ایک اہم اقدام کرنا پڑا جو پیغامات بیک وقت سینکڑوں گروپس اور اشخاص کو بھیجے جاسکتے تھے اسے صرف 5 گروپس تک محدود کر دیا گیا۔ ساتھ ساتھ ادارہ صحت کے عالمی ادارے نے بھی واضح کردیا کے آپ کو کرونا سے جو بھِی معلومات لینی ہوصرف WHO کے مستند ذرائع سے ہی حاصل کریں۔

دو سال کی انتھک محنت کے بعد بلاآخر دنیا بھر کے سائنسداوں نے اس عالمی وباء کی ویکسین تیار کر لی اور اسے صرف  دو انجیکشن لگانے کے بعد اس جان لیوا بیماری سے بچاوّ ممکن ہے۔  مختلف ممالک نے اپنے اپنے ملک کے حساب سے اس ویکسین کو لگانے کی ترغیب دی۔ کورونا سے بچاوّ کے سلسلے میں جو مستند انجیکشن بنائے گئے ہیں جن کو ہم سائنو فام،  سینو وک، اسٹرازنکہ اور فائزر نام سے جانتے  ہیں،   تاہم وطن عزیز میں اس ویکسین کو لگانے میں کوئی خاطر خواہ حکمت عملی تیار نہیں کی گئی اور نا ہی رائے عامہ کو اس حق میں ہموار کیا گیا گے   ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں ایک پیغام گردش کرتا ہوا آپ کی نظروں سے بھِی گزرا ہوگا کہ
" ویکسین کے اثرات کا اک اور رخ "دنیا کی تقسیم
 سائنو فام لگانے والوں کو سعودیہ میں داخلے کی اجازت نہیں۔

۔
 سینو وک لگانے والوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت نہیں۔
 اسٹرازنکہ لگانے والے روس میں داخل نہیں ہوسکتے۔۔۔۔
فائزر لگانے والے چائنہ نہیں جاسکتے۔ اب نیا ڈرامہ شروع ہوگیا ہے۔
مالی منافعے اور کمپنیوں کے جھگڑے نے دنیا تقسیم کردی ہے۔۔۔
اور پاک وک لگانے والوں کا تو اللّٰہ ہی حافظ ہے۔۔۔۔
وہ شاید ملیر سے گلستان جوھر،گلشن سے کورنگی،اور بلدیہ سے صدر ہی جا سکیں۔

"
چونکہ وطن عزیز میں افواہوں کا بازار کافی گرم رہتا ہے۔ اور کوئی سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کئے آگے پہنچانا اپنا فرائض منصبی میں سب سے اہم سمجھتا ہے۔ چند دنوں قبل سے ایک اور پینڈورا باکس کھل چکا ہے کہ کورونا ویکسین لگانے والے افراد کی دو سال میں موت واقع ہوجائے گی جس میں وہ   سائنسدان کا دعوی ظاہر کر رہے ہیں کے کورونا ویکسین لگانے والے تمام افراد 2 سال میں مر جائیں گے۔

حالانکہ اس دعوی کی تردید خود لک مونٹا  کر چکے ہیں۔ مگر وطن عزیز میں معاشرے کو خطرہ جاہل لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی جہالت سے ہے جو جانبدرادی یا غیرجانبداری سے اس افواہوں کو تقویت دینے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ اس طرح کی میمز بھی گردش کر رہی ہیں کہ
"بیروزگار نوجوان جلدی نا کریں صرف دو سال انتظار کر لیں سرکاری ملازمین ویکسین لگوا لیں پھر نوکریاں ہی نوکریاں"
جس سے سرکاری ملازمین میں ایک خوف ہ ہراس پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اس عالمی وباء کو وطن عزیز میں روز اول سے ہی ایک سازش سمجھا گیا اور اسے کافروں کی چال سے تشبہہ دے کر ہمیشہ حفاظتی اقدامات اٹھانے سے گریزاں رہے تاہم حکومت کی جانب سے سخت اقدامات اٹھانے پر چار و ناچار اس پابندیوں کو قبول کرنا پڑا۔

دوسال کی موت کی خبروں نے اس حوالے کو مذید تقویت دی کیونکہ پاکستان اور خاص کر سندھ میں جہاں ہمیشہ سے افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور جنگل کے کے آگ کی طرح جھوٹی خبریں پھیل جاتی ہیں۔ سندھ حکومت کے موثر اقدامات اور ویکسین لگوانے  کی معلومات بہم نا پہنچانے کے باعث شہریوں اور خصوصآ سرکاری ملازمین میں ایک کشمکش کی جنگ شروع ہوچکی ہے آیا یہ ویکسین لگوائیں  یا نا لگوائیں اس حوالے سے ایک چٹ پٹی خبر بھی نظروں سے گزری کے
"سرکاری ملازمین بری طرح پھنس گئے اگر ویکسین نا لگوائی تو جولائی سے تنخواء بند اور اگر لگوا لی تو دو سال بعد پنشن شروع ہونے کا خطرہ"
افواہوں کے اس بازار نے جہاں سرکاری و غیر سرکاری افراد کو شدید ازیت میں مبتلا کیا
وہیں خود سوشل میڈیائی ساختہ، ڈاکٹرز،سائنسدان،  فلسفی، ادیب، دانشور، عالم، مولوی اورصحافیوں نے اپنے قدم پیچھے نا رکھے۔

عجیب و غریب تحاریر اور واٹس ایپ سوتی پیغامات بھیج کر عوام کو شدید خوف ہ ہراس میں مبتلا کر دیا۔ جس سے لاء انفورسمنٹ کے اداروں خاص کرمحکمہ پولیس کے اہکاروں کے ساتھ ساتھ افسران بھی چہ مگوئیاں کرتے نظر آئے ایا یہ ویکسین لگانا سود مند ہے یا رضاکارانہ طور پر استعفی دے کر اپنی جان چھڑا لیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کے اس حوالے سے عوامی رائے عامہ کو ہمکنار کریں اور عوام کو کورنا ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے کے لئے سرکاری ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کے ساتھ علاقائی سطح پر صحافیوں کو ٹریننگ فراہم کریں کے ویکیسن کے منفی پیغامات کو روک تھام کے لئے باضابطہ ایک عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام میں شعور بیدار کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :