
کیا رات گئے کامبنگ آپریشن ضروری ہے
پیر 20 ستمبر 2021

فرقان احمد سائر
اگر حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس کامبنگ آپریشن کے نام سے ہزاروں خاندانوں کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں معصوم بچے اورخواتین جس خوف و حراس کا شکار رہتی ہیں، ان کے زہنوں میں انمنٹ نقوش ثبت ہوجاتے ہیں جو شائد تمام عمر اپنے دماغ سے محو نا کر سکیں۔ کبھی ٹارگیٹڈ آپریشن تو کبھی کومبنگ آپریشن کے نام پر تمام داخلی و خارجی راستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ عوام نا صرف اپنے گھروں میں محصور ہوجاتے بلکہ پوری رات اسی خوف سے سو نہیں پاتے نا معلوم کب دوبارا دروازہ کھٹکٹا دیا جائے۔ نا معلوم گھر سے کوئی چیز برآمد نا ہوجائے۔
(جاری ہے)
عوام چارد اور چار دیواری کے تقدس کو پامال ہوتے دیکھ کر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لئے کوئی مثبت رائے جنم نہیں دے سکتی۔
شہر بھر میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں چوری، چھینا چھپٹی اورڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں زیادہ تر رات کی تاریکی میں نہیں دن کے اجالے میں عوام اپنے جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کئی واقعات میں خواتین اور بچوں سے بھی موبائل فون اور پرس چھینے کے واقعات رونماء ہوئے۔ جن کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد بھی ملزمان کا پکڑے نا جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہزاروں ایسے واقعات ہوتے ہیں جہاں شہری کڑوا گھونٹ پی کر چپ ہوجاتا ہے اور تھانے جانے کی ہمت نہیں کرتا ، اگر کسی طور چلا بھی جائے تو وہاں تفیتیشی افسر جو اور جس قسم کے سوالات کرتا ہے ایک عام شہری بغیر شکایت درج کرائے الٹا معافی تلافی کر کے رخصت ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ اگر صرف سی پی ایل سی کے حاصل کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو شہر قائد میں کار، موٹرسائیکل کی چوری، چھینا چھپٹی اور ڈکیتی کی واراتوں میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر راوی چین کی بانسری لکھنے میں مصروف ہے۔
ہر عاقل و بالغ شخص اس بات کا اعادہ کر سکتا ہے کہ آیا شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیچھے اصل عوامل غربت اور بیروزگاری ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان ڈگریاں اٹھائے رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں ہیں جنہیں نوکریاں ملنا تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کھانے کو میسر نہیں ہوتی تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ یا تو نشے کی لت اختیار کر کے خود کو معاشرتی مسائل سے کنارا کشی کا سہارا تلاش کرتے ہیں یا پھر وارداتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
آیا کیا شہر میں کمیونٹی سسٹم قائم ہونے میں مذید ہزاروں سالوں کا سفر طے کرنا ہے جہاں علاقہ معززین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جن کی زمہ داری یہ ہی ہوکے وہ علاقہ میں مشکوک افراد یا کسی بھی غیرقانونی عمل کی لسٹ قانون نافذ کرنے والے ادارے کو دیں۔ جو اپنے طور پرغیرجانبدارانہ تحقیقات کرائیں پھر کسی مجرم پر ہاتھ ڈالا جائے۔
کیا شہرسڑکوں میں کرنے والے ملزمان 30فیصد بھی پکڑے جاتے ہیں کیا شہر بھر سے چوری ہونے والی گاڑیاں 10فیصد بھی ریکور کی جاتی ہیں۔ اگر ان کا جواب طلب کیا جائے یا کسی بھی طرح سے ضرب تقسیم کریں تو جواب صفر ہی آنا ہے۔
آیا ایک شہری جو دن بھر تھکا ہارا رات کو اپنی فیملی سے خوش گپیاں لگا کر جلدی سوتا ہے کہ صبح سویرے پھر اسے کولہو کا بیل بن کر محنت مشقت کرنی ہے اس طرح کے آپریشن ہونے کے بعد پوری رات سو پائے گا۔ کیا اس کے بچوں اور گھر کی خواتین میں وہ عزت و مقام حاصل کر پائیں گے جس کا خواب دیکھا جاتا ہے۔۔۔
سوچیئے گا ضرور۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فرقان احمد سائر کے کالمز
-
دیوار کراچی۔۔
ہفتہ 19 فروری 2022
-
جنات کے قبائل
منگل 8 فروری 2022
-
شیخ چلی کے شگوفے اور موجودہ نیا لطیفہ
جمعرات 3 فروری 2022
-
آزادی صحافت میں خطرے کی گھنٹی
بدھ 2 فروری 2022
-
ہیومین ٹریفکینگ میں نوکری اور سیکچوئیل مقاصد کا بڑھتا ہوا کاروبار
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کراچی سیف سٹی وقت کی اہم ضرورت
جمعرات 20 جنوری 2022
-
شہنشاہ غزل کے قبر کی حالت زار
جمعرات 13 جنوری 2022
-
24 دسمبرمہاجر ثقافت کا ایک تاریخ ساز دن
جمعرات 23 دسمبر 2021
فرقان احمد سائر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.