پاکستان کے سیاستدان کب اپنے دیس کو سوچیں گے

جمعہ 29 مارچ 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پڑوسی ملک بھارت میں بہوجن سماج پارٹی کے مسلمان رہنما شبیر حسین زیدی شہید کر دئیے گئے۔ بھارت کے ہندؤں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔بھارت کے مسلمان اپنے ہی ملک میں ظلم وستم کی زد میں ہیں کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ہم دیکھ رہے ہیں دنیا دیکھ رہی ہے۔دنیا بھر کے مسلم ممالک خاموش ہیں۔ظلم وجبر کی تاریخ رقم ہورہی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف مغربی قوتوں کی یلغار دیکھ کر میں اپنے وطن کو سوچتا ہوں۔

اْس وطن کو جس کی سیاست اپنے اپنے خاندانوں کو سوچتی ہے ، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ رب العزت کی اس دنیا میں پاکستان مدینہ ثانی ہے لیکن حیران ہوں کہ پاکستان کے سیاستدان کب اپنے دیس کو سوچیں گے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ مغربی آقاؤں سے محبت اور عوام سے دشمنی میں اپنا کل محفوظ کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

قومی دولت لوٹ کر اپنے خاندانوں کیساتھ عیاش زندگی جینے کا انتظام کر چکے ہیں لیکن جانے یہ کم بخت کیوں بھول چکے ہیں کہ پاکستان سے باہر جس ملک میں رہیں گے اقلیت تصور ہوں گے غیر ملکی تصورہوں گے اس کے باوجود اپنے دیس کی آزادی کو نہیں سوچتے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کی غیور عوام کو نہیں سوچتے !!

یہ ہی وہ بے ضمیر سیاستدان اور اْن کے درباری ہیں جو 35سال سے حکمران تھے باری کی حکمرانی میں ان سیاستدانوں نے صرف اپنے خاندانوں کو سوچا۔

ذاتی مفادات کو سوچا لیکن عوام کیلئے اپنے دیس میں کچھ بھی نہ کر سکے اور جب عوام کا شعور جاگا تو انتخاب میں زرداروں ،نقاب پوش، شریفوں اور مفادپرست مذہبی انتہا پسند رہنماؤں کیساتھ کراچی کی خوبصورت زندگی سے کھیلنے والوں کو مسترد کر دیا لیکن حکمرانی سے عشق میں خودپرست اور نام نہاد عوام دوستوں نے عوام کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور جس حکمران کو عوام نے منتخب کیا اْن سے پوچھ رہے ہیں”کیتا کی جے“ ایک مقامی رہنما نواز شریف کے دورِحکمرانی میں یہ ہی کچھ نواز شریف سے پوچھا کرتے تھے اور آج اْسی کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔

 خود پرست سیاستدان اور سابق حکمران نہ تو دیس کا قانون تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی بیماری کا علاج اْس پاکستان میں کروانا چاہتے ہیں جس میں 35سال تک حکمران رہے۔قوم کی سپریم عدالت نے جس کو وزارتِ اعظمیٰ سے برطرف کرکے فیصلہ دیا کہ جو صادق اور امین نہیں وہ دیس پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتے۔ اسے اپنے کیے کے جرائم میں سزا ہوئی اور علاج کیلئے تاریخ میں پہلی بار سزا کو معطل کرکے جب چھ ہفتوں کیلئے رہائی ملی تو اْس کے چاہنے والے اور والیوں نے سڑکوں پر سجدے دئیے ، یہ سجدئہ شکر نہیں بلکہ سجدئہ منافقت تھا اس لیے کہ جس کی ضمانت کی خوشی میں سجدے کیے گئے وہ قوم کا مجرم ہے دوسری طرف دلیر ، نانا ،اور دلیر ماں کا بزدل بیٹاٹرین مارچ میں قوم اور عوام کا سکون برباد کر نے نکلا اپنے باپ اور پھوپھی کی کرپشن پر ماتم کرنے کے لئے!!
پیپلزپارٹی کے چیئرمین کہتے ہیں کٹھ پتلی حکمران لیکن قوم کو یہ بتانے سے قاصرہیں قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ موجودہ حکمران کس کی کٹھ پتلی ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکمرانی میں صدائے عام تھی کہ دونوں امریکہ اور اْس کے درباری مغرب کی کٹھ پتلی ہیں اور جیالوں کو دیکھئے، کرپشن اور منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کیلئے جانے والی قیادت کو بھی اپنے کندھوں پر اْٹھا کر لے جارہے ہیں انجام میں ڈنڈے کھاتے ہیں جیل جاتے ہیں اور قیادت ہنستی مسکراتی پریس کانفرنس میں جیالہ ازم کی غیرت کو للکارتی اپنے شاہی محلات میں چلی جاتی ہے۔

 جانے نظریاتی جیالے کیوں نہیں سوچتے کہ جس کیلئے مارکھارہے ہیں وہ اپنے دورِاقتدار میں اپنی بیوی کے قاتل کو بے نقاب نہیں کر سکے وہ قوم اور ملک کیلئے کیا کریں گے۔جانے ہم غریبوں کے ہوش کب جاگیں گے کب تک خودپرست حکمرانوں کے وعدوں پر زندگی جئیں گے کب اپنے ضمیر کی آواز پر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہیں گے لیکن لگتا نہیں کہ ہم غریبوں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی اس لیے کہ ہم غریب پاکستانی شعور کے اندھے ہیں ، ہم اْن ہی کے گیت گائیں گے جو ہمارا خون پسینہ پیتے ہیں۔

بھارت سرحدوں پر سر اْٹھائے ہوئے ہے اور پاکستان کے سیاستدان اپنی جاتی حکمرانی پر ماتم کر رہے ہیں اپنے کیے ہوئے جرائم پر سزا کے خوف سے وطن عزیز میں افراتفری پھیلائے ہوئے ہیں حالانکہ ضرورت ہے قومی یکجہتی او رقومی اتحاد کی لیکن سابق حکمران سراپا احتجاج ہیں اس لیے کہ ان لوگوں نے تو کبھی پاکستان سے محبت کی نہ پاکستان کی عوام سے ان کا ایجنڈا تو لوٹ مار اورہمیں خوبصورت خواب دکھارہے ہیں اور ہم ان کے وعدوں پر دھمال ڈال رہے ہیں دراصل قصور سیاستدانوں کا نہیں قصور ہم غریب عوام کا ہے۔ جو اپنا نہیں اپنے لیڈروں کا سوچتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :