قوم کو صدارتی نظامِ جمہوریت کیلئے سوچنا ہوگا

پیر 13 جنوری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

قومی سیاست میں ہم جانتے ہیں دیس پسندوں کو ! لکیر کے فقیر ہیں ۔ سیاسی مزدور ہیں قیادت کی سوچ سوچتے ہیں ان کے بے تنخواہ ملازم ہیں !قیادت کی خوشنودی کیلئے موسم کی حدت اور شدت سے بے پرواہ ناچتے ہیں ،لُڈیاں ڈالتے ہیں نعرے لگاتے ہیں ،صرف اور صرف نظریاتی قیادت کی اقرباء پروری اور دنیا داری کی سوچ کو تحفظ اور تقویت کیلئے !! گلی محلوں میں اپنے جیسوں کیساتھ لڑتے ہیں اور لڑ لڑ کر بعض اوقات مربھی جاتے ہیں اور ان مرنے والوں کی لاشوں پر ان کی قیادت اپنی سیاست چمکا تی ہے ، اپنی دنیا سنوارتے ہیں لیکن مرنے والوں کے والدین اُن کی بیوہ اور بچوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔

سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے اللہ تعالیٰ نے اُن کے سر میں بھی اپنی قیادت جتنا دماغ دیا ہے لیکن اپنے دماغ سے ا پنے بیوی بچوں اپنے والدین کے مستقبل کو سوچنے کی تکلیف نہیں دیتے اگر سوچتے ہیں تو اُن کو جو اُن کو نہیں سوچتے جو نعرے لگاتے ہیں طاقت کاسرچشمہ عوام ہے ۔

(جاری ہے)

ووٹ کو عزت دو سب کو اندر کردوں گا کسی کو نہیں چھوڑوں گا !!
اگر اپنے شعور سے شخصیت پرستی کا پردہ اُٹھا کر سوچیں تو ہم اُن کو سوچتے ہیں جو نہ دیس کو سوچتے ہیں نہ دیس پسندوں کو سوچتے ہیں وہ اگر سوچتے ہیں تو اپنی دنیا اور اپنی دنیا والوں کو ۔

کاش!ہم طاقت کا سرچشمہ عوام تنہائی میں خود کو سوچ لیں کہ ہم اپنے دیس کی کتنی خدمت کرتے ہیں جانے ہم کب سوچیں گے کہ ہم دیس پسندوں کو اپنے ہی دیس میں زند ہ اور مردہ رہنا ہے تو اپنی زندگی دوسروں کے سیاسی مفادات کیلئے کیوں برباد کررہے ہیں ;  پاکستان کی دوبڑی سیاسی اور اُن کی ہمنوا مذہبی جماعتوں کا دورِ اقتدار ہم دیکھ چکے ہیں تیسری بڑی پارٹی کی حکمرانی میں پاکستان اور پاکستان کی عوام خود کودیکھ ر ہی ہے اور اس کو بھی جس نے اقتدار سے پہلے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے اقتدار کیلئے بہت کچھ کہتے ہیں لیکن جب اقتدار کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو اپنے کل کے وعدے بھول جاتے ہیں پھر ان کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے ،، کہ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ آدمی کیساتھ ،، اس کے باوجود ہم خوبصورت خواب دیکھنے خواب کی بدصورت تعبیر پر بھی خود کو نہیں سوچتے البتہ ان کو سوچتے ہیں جو اپنی قیادت کے مخالفین ہوتے ہیں اُن کو سوچ سوچ کر اپنی نیندیں حرام کردیتے ہیں ۔

تحریک انصاف کے عمران خان نے حکمرانی سے قبل سرِعام مخالفین جماعتوں پر تنقید میں کہا تھا کہ میری مختصر کابینہ ہوگی لیکن آج دیکھ لیں اُن کی کابینہ گزشتہ ادوارکے حکمران سے کہیں زیادہ ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں وزیروں اُن کے مشیروں اور مشیرو ں کے درباریوں کی فوج افواجِ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچیں گے اسلیے کہ ہماری سوچ محدود ہے ہم شور مچاتے ہیں مہنگائی کا لیکن کبھی نہیں سوچا کہ قومی خزانے پر تو حکمرانوں کی فوج قابض ہے دنیا بھر سے قر ضے لے لے کر اپنے وزیروں مشیروں کا پیٹ بھرتے ہیں اُن کی شاہانہ زندگی کے اہتمام پر قومی خزانہ لٹاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نعرہ لگاتے ہیں جمہوریت کا جمہوریت کے استحکام کا کاش ہم اپنے گریبان میں دیکھ کر سوچ لیں تو ہ میں یقین آئے گا کہ ہم عوام اور پاکستان پسندوں کو موجودہ صورتحال میں جمہوریت اور جمہوریت نوازوں نے کیا دیا ۔

لاشیں ،چور،لٹیرے،ڈاکوکیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم نظام کی تبدیلی کا سوچیں کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ہم جمہوریت کے لبادے میں ملبوس چوروں ،ڈکیتوں ،خودپرستوں ،شاہی حکمرانوں سے نجات کیلئے کسی نئے راستے کا انتخاب کریں صدارتی نظامِ جمہوریت کی طرف قدم بڑھائیں ۔ نجات حاصل کریں وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ سے ان کے وزیروں اور مشیروں کی فوج سے اگر قومی سیاست امریکہ سرکار کی اسیر ہے تو نظام بھی وہی اپنائیں صدارتی نظامِ جمہوریت میں ہی پاکستان اپنے پاءوں پر کھڑا ہوسکتا ہے اور قوم کو صدارتی نظامِ جمہوریت کیلئے سوچنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :