ہم مغربی غلاموں کے غلام ہی رہیں گے

ہفتہ 13 نومبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوزیشن کی خوش فہمی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مجوزہ مشترکہ اجلاس میں دور ہو جائے گی ، بلاول بھٹو ، مریم اور نگ زیب مرم نواز اور شاہد خا قان عباسی اگر کسی خوش فہمی میںدل پشاوری کرنا چاہیں تو کسی کو کیا ا اعتراض ہے ، عمران خان سے ہر قومی مسئلے پر استعفیٰ کا مطالبہ بھی تواب ایک قسم کا مذاق بن چکا ہے عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے اس نے جو چاہا کر کے دکھایا ہے اورجو کر کے دکھانے والا ہے وہ کر کے دکھائے گا جہاں تک اتحادیوں کی بات ہے وہ دل سے عمران خان کے ساتھ نہیں ان کا حکومت کا ساتھ دینا ان کی مجبوری ہے ساتھ نہیں دیں گے تو بے روزگا ر ہو جائیں گے اور اپوزیشن کی طرح سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہیں
مسلم لیگ ن دور ِ جنرل ضیاالحق کی مسلم لیگ ق دور جنرل مشرف کی پیداوار ہیں مسلم لیگ ق جانتی کہ مسلم لیگ ن کے پر نکلے تو انجام دنیا نے دیکھ لیا مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران ایسی غلطی نہیں کریں گے مشترکہ اجلاس میں اتحادی حکو مت کے ساتھ اور اپوز یشن پوری تیاری کے ساتھ آئے گی اور منہ کی کھائے گی ۔

(جاری ہے)

اگرچہ مشترکہ اجلاس کے حوالے سے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے اراکین کی تعداد کا فرق زیادہ نہیں مگر جمہوری نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ سرکاری بنچیں ہوں یا حزبِ اختلاف کی بنچیں، ان کا اصل مقصد ملکی مفادات کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے ایسی بہتر قانون سازی ان کے پیش نظر ہوتی ہے جو ملکی مسائل حل کرنے اور تنازعات دور کرنے کا ذریعہ بنے۔

اس مشترکہ اجلاس سے بھی توقع کی جارہی ہے کہ نقطہ نظر کے فرق کے باوجود بہتر فیصلے تک پہنچنے کا قومی جذبہ نمایاں رہے گا۔
منگل کے روز دو مواقع پر حکومت کوشکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی شکست مسلم لیگ (ن) کے جاوید حسنین کے پیش کردہ بل کی حکومتی مخالفت کے بعد رائے شماری کی صورت میں 104ووٹوں کے مقابلے میں 117ووٹوں سے اجازت دیئے جانے کی صورت میں سامنے آئی ۔

ا بل کسی ایک پارٹی سے الیکشن لڑنے والے کے لئے سات سال تک دوسری پارٹی سے الیکشن لڑنے کی ممانعت کے بارے میں تھا حکومت کی بہترین کوشش تھی کہ لوٹوں پر پابندی لگے لیکن جو الیکشن لڑتے ہی ذاتی مفادات اور مراعات کے لئے ہوں وہ اس کے حق میں ووٹ دیکر اپنے پاﺅں پر کلہاڑی کیسے مار سکتے ہیں!
حکومت کو دوسری بار خفت کا سامنا اس وقت ہوا جب پی ٹی آ ئی کی رکن اسماءتقدیر کے پیش کردہ بل پر ووٹنگ کے بعد مطلوب تعداد پوری نہ ہو سکی۔

پارلیمنٹ اس قانون کا مقصد انتخابی و قانونی اصلاحات، الیکٹرونک ووٹنگ، کے بارے میں قانون سازی کرنا ہے۔ پارلیمنٹ میں درج بالا دو بلوں پر حکو مت حمایت حاصل نہ کر سکی تو بلاول نے مریم کے ساتھ عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا لیکن عوام کیا اپوز یشن خود بھی جانتی ہے کہ ان کی وقتی خوش فہمی ہے چلو را نجھا راضی کر لیتے ہیں!
انتخابی عمل میں شفافیت کے لئے انتخابی و قانونی اصلاحات، الیکٹرونک ووٹنگ میں حکومت کی تجویز پر اعتراض ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے والوں کی مخالفت بے معنی ہے لیکن دو نمبری کی پیدا وار جانتے ہیں کہ وہ عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں دونمبری کے بغیر سیاست میں زندہ رہنا ان کے لئے ناممکن ہے جب تک انتخابی عمل میں تبد یلی نہیں آئیگی ،فکری اور شعوری طور پر ہم خود میں تبدیلی نہیں لائیں گے ہم ترقی پذیر ہی رہیں گے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں گے، لیکن اگر حکومت کی تمام تر نیک خواہشات کے باوجود انتخابی اصلاحات کا بل پاس نہیں ہوتا تو یہ پاکستان اور پاکستان کی عوام کی بد نصیبی ہو گی ہم مغربی غلاموں کے غلام ہی رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :