ارطغرل ، پاکستانی فنکار ، میڈیا اور منافقت

ہفتہ 13 جون 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

ارطغرل ڈرامے نے کفار کی اسلام سے نفرت کے ساتھ پاکستان کے پرائیویٹ میڈیا اور فنکاروں کی منافقانہ سوچ کو بھی عیاں کر دیا۔پاکستان کے تمام فنکاروں کو اس ڈرامے کے نشر کیے جانے کا دکھ ہے جب جیو پر میرا سلطان دکھایا گیا تب ان کو دکھ نہ ہوا ، جب کوسم سلطان نشر کیا گیا تب بھی کسی کی زبان نا کھلی، ماریہ واسطی نے ترکی سے مارننگ شو نشر کیا کسی کی زبان نے جنبش نا کی۔

جب عاطف اسلم ، راحت فتح علی اور صبا قمر نے انڈیا جا کر کام کر رہے تھے اور ایسے ہی تعصبانہ بیانات انڈیا کی طرف سے آ ارہے تھے تب یہ فنکار اور میڈیا کہتا تھا کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور انڈیا کے لوگ ہم سے اور ہمارے کام سے جلتے ہیں۔اور ماہرہ خان کی رئیس تو سب کو یاد ہی ہو گی جب اس نے جذبات ابھارنے والے مناظر فلمائے تب کوئی پاکستانی فنکار ناقد سامنے نہیں آیا،جب وینا ملک نے جسے پاکستان کا سب سے روشن ستارہ سمجھا جاتا ہے کیا کیا چن نہیں چڑھائے ، عدنان سمیع بھی پاکستانی فنکار تھا اس نے ملک کے ساتھ غداری کر کے بھارتی شہریت اپنائی اور بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی تب کسی فنکار کی اتنی غیرت نہ جاگی ۔

(جاری ہے)

افسوس کی بات سہیل احمد جیسا فنکار دنیا ٹی وی پر کہہ رہا تھا کہ اس ڈرامے کے نشر کرنے سے پاکستانی ثقافت کو نقصان ہواسہیل احمد سے کوئی پوچھے جب سٹار پلس چلتا تھا اور جو ہمارے سینما میں انڈیا کی فلمیں چلتی تھیں وہ کون سی ثقافت تھی ؟سہیل. صاحب ارطغرل میں ترکی کی نہیں اسلامی ثقافت دکھای گئی ہے ۔اج کل ایک پاکستانی ڈرامہ چل رہا ہے'' پیار کے صدقے اس میں سسر معصوم بہو کو رکھیل بنانا چاہ رہا ہے یہ ثقافت ہے پاکستان کی ؟ ایسی ثقافت دکھانے والے ڈوب کے مر کیوں نہیں جاتے ۔

کتنی کتنی واحیا جگتیں اور گھٹیا لباس کے ساتھ ننگی ماں بہن کی باتیں سٹیج پر دکھائی جاتی تب سہیل احمد صاحب کبھی آپ کو شرم آئی ؟یہی ارطغرل کسی بھی پرائیویٹ پاکستانی چینل نے خرید کر چلایا ہوتا تو کوئی نہ بولتا،مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی وی کیوں پیسے کما رہا ہے ۔پاکستان کے تمام سرکاری ادارے بشمول پی ٹی وی تباہ ہو چکے ان لوگوں کو تکلیف یہ کہ کہیں پی ٹی وی کا کام نہ چل پڑے۔

اس ڈرامے میں ترکی کی ثقافت نہیں بلکہ اسلامی ثقافت دکھائی ہے ، ادکار شان صاحب آپ کے تو کیا کہنے ذرا اپنی پچھلے دس سال کی فلمیں دیکھ لیجئے ہم کہیں گے تو شکایت ہو گی ،جو جو گل آپ نے پنجابی فلموں میں کھلائے وہ پاکستان کی ثقافت کا جنازہ تھا اوراس جنازے سے صرف تین لوگ ادکار شان ، صائمہ اور سید نورکامیاب نکلے ۔ارطغرل اسلامی ثقافت اور تہذیب کا نمائندہ ہے یا تو تمام لوگ کہہ دیں کہہ ہم پہلے پاکستانی اور پھر مسلمان ہیں پھر بات سمجھ آتی ہے کہ پاکستانی تہذیب پر اسلامی تہذیب کو کیوں فوقیت دی گئی؟ لیکن اگر ہم پہلے مسلمان ہیں تو پھر اس قسم کے بیانات باعث شرم ہیں۔

اور اگر ارطغرل سے پاکستانی ڈرامہ انڈسڑی اور پاکستانی ثقافت تباہ ہو گئی ہے تو پھر اس ڈرامہ انڈسری اور اس ثقافت کے علمبراداروں کو سوچنا چاہیے کہ تہیتر برس سے اتنی کمزور ثقافت اور انڈسٹری کو پروان چڑھایاا س سے ثابت ہوا آپ کی خدمات نا صرف کم تھی بلکہ غیر معیاری اور ناقص بھی تھیں۔تمام فنکار تعصب اور منافقت سے باہر نکلیں باحیثیت مسلمان اور با حیثیت ایک امہ یہ ڈرامہ ہمارا فخر ہے ۔

اگر کچھ بند ہی کروانا ہے تو چھوٹا بھیم اور ردھرا والے انڈین کارٹون بند کروائیں یہاں کسی کی زبان نہیں ہلتی جہاں پورا انڈین کلچر ، زبان اور کہا نیاں ہماری آنے والی نسلوں کو مکمل پلاننگ کے ساتھ سکھائی جا رہی ہیں۔ اس ڈرامے کو لے کر میڈیا کی منافقت بھی کھل کر سامنے آگئی ، بہت سارے چینلز مالکان ، صحافیوں اور اینکروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں ،ارطغرل ڈرامے نے ہر منافق کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :