14 اگست ، ایک عہدکا دن

پیر 13 اگست 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میں اپنے والد محترم مرحوم کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں جب وہ قیام پاکستان کے وقت اپنے اور خاندان کی ہجرت بارے تلخ یادوں کی داستان ہمیں سناتے ہوئے ، حوصلہ ، بہادری اور صبر جیسی قیمتی نعمتوں سے مالامال ہونے کے باوجود اشکبار ہوجاتے ۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کے وقت ان کی عمر قریب دس سال تھی اور بچپن کے ان ایام میں جہاں والدین اپنے بچوں کی معصوم خواہشات کو پوراکرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی بچپن کی یادوں کو حسین بناتے ہیں ، وہاں یہ اور ان جیسے سیکڑوں بچے پنے بڑے بڑے محلات ، آسائشوں اور نعمتوں کی فراوانی کو چھوڑ کر سخت حالات کا مقابلہ کرتے ،لٹے پھٹے قافلوں کے ساتھ خون کی ندیاں پار کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے ۔

قیام پاکستان کے وقت پیش آنے والی مشکلات اور اذیتوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ وہ ہمیں یہ نصیحت کرتے کہ پاکستان کی آبیاری میں لاکھوں لوگوں کا خون ، کئی پاک باز اور عفت مآب بہنوں ، ماؤں اور بیٹیوں کی عصمت دریاں ،نوزائیدہ بچوں کے معصوم لاشے ، دشمن کے ہاتھوں ان کے ظلم کا نشانہ بننے والے جوانوں کی شہادتیں شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمیشہ اس مملکت عزیز کی قدر کرو۔

اس کی ترقی کے لئے کو شش کرو ۔
قارئین ! لند ن کے اخبار ’ڈیلی میل‘ کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔سفر کے بعد جن حالات کا اس نے مشاہدہ کیا بعد ازاں اس نے 27اگست 1947کے ’ڈیلی میل‘ میں ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا :”میری کہانی صرف وہ لوگ سُن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا،اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔

لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل 9ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سماسکتے تھے۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کردیاگیاتھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لئے روانہ ہوئی۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جولاہور کی لُٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اور دہلادینے والے تھے۔

گدھ ہرگاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہورہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اُٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔

اُ س ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔“ وہ مزید لکھتاہے: ”فیرو زپور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لُٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رُکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہوگئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹَپ ٹَپ گرنے لگا۔

بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہراکر درندے نے کہا’لو! یہ ہے تمہارا پاکستان‘۔ جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوکِ سناپہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا“۔ ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے: ”بٹھنڈاسٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ، گھناؤنا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔

دولڑکیوں کوتو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔“
قارئین محترم ! یوم آذادی کے اس عظیم دن پر جہاں ہمیں جشن منارہے ہیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ نوجوان نسل کے آگے قیام پاکستان کے وقت آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کریں کہ کیسے ہمارے بزرگوں نے اس کے لئے قربانیاں دیں ۔ کن کن اذیتوں کا وہ شکار رہے ۔ جشن آزادی کا یہ دن ہم سے اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ آئیں آج ہم یہ عہد کریں کہ صرف بظاہر شور شرابے، موٹر سائیکلوں کے سلسنر اتار کر لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر کے ، چوراہوں اور چوکوں میں بھارتی گانوں پر رقص وسرور کی محفلیں بر پا کر کے راستہ روکنے کی بجائے اپنے ہم وطنوں کوآسانیاں فراہم کرنے کا عہد کریں ، اپنے محلوں اور شہروں کو صاف بنا نے کا عہد کریں ،ظالم کے خلاف ڈت جانے اور مظلوم کا بازو بننے کا عہد کریں ، اپنے بزرگوں کی لا زوال قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا نے کا عہد کریں ، کرپشن ، رشوت خوری اور اس جیسی لعنتوں کے خلاف سینہ تان کر کھڑا ہو کر پاکستان کو کرپشن فری معاشرہ بنا نے کا عہد کریں ،امانت ، دیانت اور شرافت جیسے اصولوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا عہد کریں اور پاکستان کو ایک ایسا پاکستان بنا نے کا عہد کریں کہ ایک ایسا پاکستان معرض وجود میں آئے کہ جس کی ہاں اور ناں میں اقوام عالم کے فیصلے ہوں۔

انشا ء اللہ!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :