ایسے انمول لوگوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا

منگل 21 اگست 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بلاشبہ ارض پاکستان کا شمار ایسی سر زمین میں ہو تا ہے جو نعمتوں کے حوالے سے ہی سر سبز و شاداب نہیں بلکہ اس میں کئی ایسے انمول لوگ اپنے حصے کا دیا روشن رکھے ہوئے ہیں جس کی بدولت بے یقینی اور نا امیدی کی تاریکی ختم اور امید و یقین کی روشنی پھیلتی جا ر ہی ہے ۔ کچھ لوگ انسانوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں تو کچھ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق اور ان کی بقاء کے لئے بھی سر گرم عمل ہیں ۔

ایسے ہی ایک فرد بلکہ اپنی ذات میں ایک تحریک کا نام بد ر منیر ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے جنگلی حیات کے تحفظ اور تیزی سے معدوم ہوتی ان کی نسلوں کی حفاظت کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے ملک میں جہاں انسانوں کو حقوق میسر نہیں وہاں جنگلی حیات کے تحفظ اور ان کی بقا ء کے حوالے سے آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن بھلا ہو بدر منیرجیسے لوگوں کا جو اپنے ذاتی خرچے پر جنگلی حیات کی بقا کے لئے دیوانہ وار مصروف عمل ہیں ۔

(جاری ہے)


قارئین کرام ! ارباب اختیار کی نا اہلی اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات اور ان کی قیمتی نسلیں موسم کی سختیوں اور غیر قانونی طریقے سے شکار کرنے والے شکاریوں کی وجہ سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس ڈیٹا میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ ، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کی جانچ کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2017 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 68 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ماہرین نے بتایا کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔


ماہرین نے واضح کیا کہ یہ صورتحال نسل انسانی کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے کیونکہ ایک زندگی کا دار و مدار دوسری زندگی پر ہے۔ ’ہم بچپن سے یہ بات پڑھتے آئے ہیں کہ ہم ایک لائف سائیکل کے مرہون منت ہیں جو صدیوں سے جاری ہے۔ اس لائف سائیکل یا زندگی کے چکر کے تحت ہر جاندار کسی دوسرے جاندار کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس چکر میں ایک بھی جاندار کم ہوجائے تو اس کا اثر پورے چکر پر پڑے گا‘۔

ان کا کہنا ہے کہ انسان پوری طرح فطرت کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف ہوا، صاف پانی، غذا اور دیگر اشیا کا حصول فطرت سے ہی ممکن ہے اور جانور ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ جانوروں کی تعداد میں کمی کا مطلب فطرت کو تباہ کرنا ہے یہ پہلی رپورٹ نہیں جو جنگلی حیات اور فطرت کو لاحق خطرات کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے ہی تیز رفتار ترقی کے باعث انسانوں، جنگلی حیات اور فطرت کو نقصان پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے جسے اگر روکا نہیں گیا تو شاید یہ زمین پر آباد جانداروں کے خاتمے پر منتج ہو۔


قارئین محترم !بدر منیر اور ان کے رفقاء کار اس سنگین صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں جنگلی حیات کی معدوم ہوتی نسلوں کی بقا کے لئے باگ دوڑ کر رہے ہیں ۔ ان کی صلاحیتوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 2002سے 2008تک محکمہ تحفظ جنگلی حیات کا اعزازی گیم وارڈن تعینات کیا گیا۔اس دورانئے میں محکمے کی ترقی اور جنگلی حیات کے لئے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے گئے وہ ایک ریکارڈ ہے جسے ابھی تک کوئی توڑ نہ سکا۔

اب جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وجود میں آگئی ہے اور عمران خان نے بطوروزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد قوم سے جو پہلا خطاب کیا ہے اس میں انہوں نے تباہ حال اداروں کی بہتری کے لئے متعلقہ فیلڈ کے جید لوگوں پر مشتمل ٹاسک فورس بنا نے کی بات کی ہے ۔ میری وزیراعظم عمران خان سے خصوصی درخواست ہے کہ جیسے ماحول کی بہتری کے لئے انہوں نے” بلین ٹری“ جیسے شاندار منصوبے کا آغاز کیا تھا اسی طرح محکمہ جنگلی حیات کی بہتری اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے بھی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لائیں اور میرے خیال میں جس کے سر براہ کے طور پر بدر منیر بہترین آپشن ہیں۔

اس وقت ضرورت ہے کہ ہمیں ایسے انمول لوگوں کی صلاحتیوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ یہ تحریک انصاف کے بھی دیرینہ کارکن ہیں اور جنہوں نے حقیقی معنوں میں درویشی سٹائل میں پارٹی کی خدمت کی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کے ویژن کے مطابق اپنی خدمات پہلے سے بھی مزید بہتر طور پر اداء کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :