شاباش پنجاب پولیس!!!

پیر 11 فروری 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کے احکامات کی روشنی میں پورے پنجاب میں ضلعی انتظامیہ اور افسران کی جانب سے عام عوام کے لئے کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں لوگوں کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے اور انہیں پہلی سیڑھی پر ہی انصاف دینا مقصود ہے ۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں ہر جمعہ کو باقاعدگی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے جہاں لوگوں کے مسائل کو موقعے پر ہی حل کیا جا رہا ہے ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے صوبے میں کھلی کچہریوں میں ضلعی انتظامیہ سے زیادہ ،پولیس کے افسران متحرک ہیں ہے جس کا سہرا پنجاب پولیس کے آئی جی امجد جاوید سلیمی کو جاتا ہے جو افسران و ملازمین کی مانیٹرنگ اپنے دفتر میں بیٹھے کر رہے ہیں اور لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔

(جاری ہے)

یہ امجد جاوید سلیمی کا ویژن ہے کہ افسران خود لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں اور صوبے میں گوجرانوالہ ریجن نمبر ایک پر ہے جو وزیر اعظم سیٹیزن پورٹل، وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل اور کھلی کچہری کے ذریعے آنے والی درخواستوں پر عملدرآمد کرانے میں پیش پیش ہے ۔


ریجنل پولیس افسر گوجرانوالہ طارق عباس قریشی کا شمار پولیس کے ان جید اور قابل لوگوں میں ہوتا ہے جو پولیس، انٹیلی جنس بیورو اور ایف۔آئی۔اے میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا چکے ہیں اور جنہیں امریکہ اور یورپ کے ممالک میں پولیسنگ کے نظام سے بھی بخوبی واقفیت حاصل ہے ۔ ان کے مطابق اگر لینڈ ریکارڈ کو نیک نیتی کے ساتھ آن لائن کرتے ہوئے شفاف بنا دیا جائے تو زمینوں پر قبضہ کے 90فیصد مقدمات حل ہو سکتے ہیں ۔

کھلی کچہری میں آنے والے لوگوں کی 90فیصد درخواستیں زمینوں کے قبضے کے حوالے سے ہوتی ہیں ۔ یورپ میں اینٹی فراڈ یونٹس کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات بڑے بینک اور انشورنس کمپنیاں برداشت کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں فراڈ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اگر اسی طرح پاکستان میں بھی بڑے بینک اورکمپنیاں اینٹی فراڈ یونٹس بنا نے اور ان کے دیگر اخراجات برداشت کرلیں تو پاکستان میں بڑھتے ہوئے فراڈ کم ہو سکتے ہیں ۔


وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چاہئے کہ جہاں انہوں نے کھلی کچری کا انعقاد کر کے تبدیلی کے نعرے کو حقیقت میں تبدیل کیا ہے وہاں پولیس کے نظام کو بھی مزید فعال او موثر بنا نے کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ طارق عباس قریشی جیسے متحرک اور تجربہ کار لوگوں کو پولیس ریفارمز یونٹ کا حصہ بنائیں اور جدید طور کے مطابق پولیسنگ کے نظام کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے ۔

سب سے پہلے صوبے میں ہر ضلع کو موبائل لوکیٹر دیا جائے اور جہاں لوکیٹر ہیں وہاں انہیں4.Gپر اپ گریڈ کیا جائے ۔ چوری جیسی وارداتوں کی روک تھام کے لئے فنگر پرنٹس سوفٹ وئیر بنایا جائے اور اس کی رسائی تمام افسران تک دی جائے ۔ ان دونوں کاموں کے لئے فنڈنگ کا بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ، اس کے لئے برٹش کونسل، یو۔این۔ڈی۔سی پی سمیت کسی بھی ادارے کو درخواست کی جائے تو وہ رضاکارانہ طور پر یہ دونوں چیزیں دینے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں۔


محدود وسائل، بے تحا شہ مسائل اور شدید پریشر کے ساتھ 24گھنٹے لوگوں کی خدمت پر معمور ،پنجاب پولیس جس طریقے سے اپنے ہم وطنوں کی خدمت پر معمور ہے بلا شبہ اس کا سہرا آئی۔جی ہنجاب امجد جاوید سلیمی کو جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں میں مجھے بھی گوجرانوالہ پولیس کی جانب سے ایک کھلی کچہری میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سی۔پی۔او گوجرانوالہ ڈاکٹر معین مسعود، ایس۔

ایس۔پی آپریشنز ، ڈی۔ایس۔پی اسیٹلائٹ ٹاون اور ایس۔ایچ،او سیٹلائٹ ٹاون بھی موجود تھے ۔ اس میں بالخصوص کبری ٰ بی بی کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھاجس کے گھر پر کئی سالوں سے قبضہ مافیا قابض تھا۔بھلا ہو ریجنل پولیس افسر گوجرانوالہ ، طارق عباس قریشی اور ڈی۔ایس۔پی سیٹلائٹ ٹاون احسان اللہ شاد کا کہ انہوں نے اس غریب عورت کے دکھ کو سمجھا اور بڑی دلیری کے ساتھ قبضہ گروپ کے خلاف کھڑے ہوئے ، ان کے خلاف کاروائی کی اور جو کام ضلعی انتظامیہ کا کرنے والا تھا وہ بھی اپنے ذمہ لے لیا اور یوں بیوہ عورت کبریٰ بی بی کو 7سالوں بعد اپنا حق مل گیا۔

بلا شبہ پولیس کے ان افسران کی کاوشیں جہاں اللہ کی بارگاہ میں انہیں سرخرور کریں گی وہاں عوام کے دل میں بھی ان کی محبت پیدا ہو گی اور عرصہ دراز سے پولیس کے ارباب اختیارکو لاکھوں روپے خرچ کر نے کے باوجود بھی عوام کے سامنے پولیس کا امیج بہتر کر نے میں جو ناکامی انہیں حاصل ہوئی ہے ، ایسے واقعات کی وجہ سے عوام اور پولیس میں بڑھتا ہوا فرق کم ہو سکے گا۔ یقینا طارق عباس قریشی اور احسان اللہ شاد جیسے پولیس افسران معاشرے کا حسن ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جو مجھے یہ بات لکھنے پر مجبور کر رہی ہے کہ شابا ش پنجاب پولیس!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :