مزاح نگاری کا سالار۔مشتاق احمد یوسفی

منگل 23 جون 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

واضح رہے کہ اردو ادب میں طنز و مز اح کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی کو جو مقام حاصل ہے اس سے ہر باخبر شخص بخوبی آگاہ ہے اور یہ کہنے میں شائد کوئی حرج نہ ہو کہ یوسفی اردو مزاح نویسی کا سا لار اعلیٰ تھا ۔ مشتاق احمد یوسفی 1923 میں راجستھان کے نواح ، ٹونک میں پیدا ہوئے۔ یوسفی نے متعدد قومی اور بین الاقوامی سرکاری اور مالیاتی اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

یاد رہے کہ انہیں 1999 میں ستارہ امتیاز ایوارڈ اور 2002 میں ہلال امتیاز ایوارڈ ملا، جو حکومت پاکستان کی جانب سے دیا گیا سب سے بڑا ادبی اعزاز ہے۔ ان کے والد عبدالکریم خان یوسفی جے پور بلدیہ کے چیئرمین اور بعد میں جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر تھے۔یوسفی نے ابتدائی تعلیم راجستھان (یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل راجستھان راجپوتانہ کے نام سے جا نا جاتا تھا ) میں مکمل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ اور ایل ایل بی میں ڈگری حاصل کی۔

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے بعد، ان کا کنبہ پاکستان ہجرت کر گیا۔انہوں نے 1950 میں مسلم کمرشل بینک میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں ڈپٹی جنرل منیجر بن گئے۔ مشتاق احمد یوسفی 1965 میں الائیڈ بینک لمیٹڈ میں منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ 1974 میں، وہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے صدر بنے۔ 1977 میں، وہ پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین بنے۔ بینکنگ میں نمایاں خدمات کے لئے انہیں قائد اعظم میموریل میڈل سے نوازا گیا۔

ان کی اردو کی مشہور کتابوں میں آب گم، چراغ تلے، خاکم بدہن ، زرگزشت اورشام شعر یاراں شامل ہیں۔یوسفی کے پچھلے کاموں کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تصنیف شمشیر یاران بہت سارے یوسفی سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک بہت بڑی مایوسی ثابت ہوئی ۔ خود یوسفی نے ذکر کیا کہ وہ ابھی تک اس کتاب سے مطمئن نہیں تھے، لیکن ان کی کمزور صحت کی وجہ سے، ہر ایک نے اصولی بنیاد پر اسے شائع کرنے پر اصرار کیا۔

یہ بات بھی خاصی دلچسپی کی حا مل ہے کہ انہوں نے بینکنگ کے شعبے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اس میں خاصے بڑے عہدوں پر فائز رہے مگر بطور بینک کار شائد ہی ان کی کوئی بڑی شناخت ہو جبکہ ان کی اصل پہچان اردو مزاح نگاری ہے اور اس حوالے وہ ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔دنیا کے جس بھی حصے میں اردو زبان بولی، لکھی اورسمجھی جاتی ہے ،وہاں ان کی مزاح نگاری سے لوگ بھرپور لطف اندواز ہوتے ہیں۔عہد یوسفی کا اختتام 20جون 2018کو کراچی میں طویل علالت کے بعد ہواتھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :