عالمی ذمہ داری اور یوم الحاق پاکستان

پیر 20 جولائی 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

واضح رہے کہ 19 جولائی کو ہر سال یوم الحاق پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے، 1947 کو قیام پاکستان سے تقریبا سوا ماہ قبل اس دن سرینگر میں کشمیری قیادت نے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، سری نگر کے آبی گزر علاقے میں جو لال چوک سے متصل ہے ، میں الحاق پاکستان کی قرارداد مجاہد ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کے گھر پر منظور کی گئی ۔

یہ تاریخی قرارداد تھی جو جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے ایک ہنگامی کنونشن میں منظور کی ۔کنونشن کی صدارت چوہدری حمید اللہ خان نے کی، پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے پیش کی ۔اس موقع پرتقریباً 60 مسلم رہنما کنونشن میں شامل تھے ۔
یاد رہے کہ بھارت نے کشمیر پر اپنی فوجیں اتارنے کا فیصلہ برطانیہ سے مل کر کیا جب 27 اکتوبر1947 کو سری نگر کے ہوائی اڈے پر بھارت کی فوج کی پہلی یونٹ اتری اس وقت کشمیری بھارت کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

ریڈ کلف نے باؤنڈری ایوارڈ کے تحت مسلم اکثریتی گورداسپورضلع کو بھارت میں شامل کر لیا جب کہ تقسیم کے فارمولے کے تحت اسے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا مگر سازش سے بھارت کو کشمیر کے لیے راہداری فراہم کی گئی ۔
اگر گورداسپورضلع بھارت کو نہ دیا جاتا تو بھارت کا کشمیر کے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ،پاکستان نے بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف 31 دسمبر 1947 کو جوابی کارروائی کا فیصلہ کیا تو بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے سیز فائر کے لیے رجوع کر لیا اور اس سے مداخلت کی اپیل کی۔

پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان یکم جنوری 1949 کو سیز فائر ہوگیا یہ جنگ بندی اقوام متحدہ نے کرائی۔ سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری کرانے کی بھارتی یقین دہانی کے بعد سیز فائر قبول کیا۔ سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کی جس پر کشمیریوں کے ساتھ راہداری رائے شماری کا وعدہ کیا گیا۔ بھارتی حکمران 1964 سے ہی اپنے وعدوں سے مکر گئے۔


انہوں نے 1965میں اپنی پارلیمنٹ میں ایک نام نہاد قرارداد منظور کرنے کا ڈرامہ کیا جس کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دے دیا۔ 19 جولائی 1947کو کشمیریوں کا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ آج بھی مقبوضہ ریاست میں جھلکتا ہے۔آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کشمیری پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ وہ اپنے شہداء کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر کر دفناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان منایا جاتا ہے اور تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کیلئے اور بھارت سے غلامی کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے ۔


بعض مبصرین کی رائے ہے کہ کچھ سابق پاکستانی حکومتیں دہلی کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اپناتی رہی ہیں جس سے کشمیر کاز کو زبردست نقصان پہنچا ۔ یہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے یا کوئی سرحدی جھگڑا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر اب بھی موجود ہے اور پاکستان اس کا اہم فریق ہے ۔

کشمیریوں کو اقوام متحدہ تک رسائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کو مبصر کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔
یوم الحاق پاکستان کے موقع پر بھی کشمیر شہدا کے خون سے سیراب ہو رہا ہے، آزادی پسند گرفتار ہورہے ہیں، نوجوانوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں قائدین نظر بند ہیں انہیں پر امن احتجاج کی بھی اجازت نہیں ۔خصوصا 5اگست 2019کے بعد سے پورے مقبوضہ کشمیر میں بدترین قسم کا لاک ڈاؤن نافذ ہے اور نہتے کشمیریوں کے خلاف ہر قسم کا ظلم روا رکھا جا رہا ہے ۔

یوں عملی طور پر مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکی ہے،نہتے کشمیریوں کا قتل عام روز مرہ کا معمول بن چکا ہے مگر نام نہاد عالمی برداری تاحال خاموش تماشائی بنی یہ سب دیکھ رہی ہے البتہ پاکستان کی حکومت ،عوام اور عسکری قیادت ہر ممکن سعی کر رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداروں کے مطابق حل کیا جا سکے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تا حال اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ایسے میں امید ہی کی جا سکتی کہ اقوام عالم کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی ختم کرانے میں اپنا انسانی فریضہ ادا کرئے گی وگرنہ جنوبی ایشیاء کا امن کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو بھارت کے علاوہ کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :