قرنطینہ اور ہم جوان

بدھ 1 اپریل 2020

Hamza Latif

حمزہ لطیف

جی جناب والہ گزشتہ کچھ دنوں سے ہم سب کے تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری سرگرمیوں میں انسان مصروف رہتےاور اسکے بعد آکر یونیورسٹی کا کام کرنے میں مصروف رہتے اور وقت گزرتا تھا ۔مگر اب کرونا وائرس کی وجہ سے جو چھٹیاں دی گئی ہیں ۔یہ سب کے لئے ایک نیا تجربہ اور عالم انسانیت کے لئے ایک آزمائش کی گھڑی ہے۔

۔اور اب سب کو گھروں میں محصور ہونا پڑرہاہے ۔میری 20سالہ زندگی میں آیا وقت پہلی بار آیا ہے۔جہاں قرنطینہ کے بہت سے لوگ تنگ آ کے ہیں وہاں اس کے مجھے کافی فوائد بھی دے رہا ہے۔
سب سے پہلی تو گھر والوں سے تفصیلاً ملاقات ہوئی جان کے نہایت خوشی ہوئی کہ بہیت اچھے لوگ ہیں یہ خیر یہ تومزاک تھا ۔ہاں کڑواسچ ۔ یہ ہے کہ عام مصروف زندگی میں انسان گھر والوں کے ساتھ کم ہی وقت ملتا ہے بیٹھنے کواور کچھ نایاب گڑیاں ہ   ملتی ہیں ان کے ساتھ تو اس قرنطینہ بہت وقت مل گیا۔

(جاری ہے)

اب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو رہےہیں۔
ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہو کی ہم خود جان نہیں
سکتے کہ ہم کیا کر ہیں جو کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے ۔کییا ہمیں جو کام ہم کر رہیں ہیں اس سے سکون مل بھی رہا ہے یہ نہیںاس پر کام کرنے کے گیا۔اس کے بعد کچھ نئے مشاغل کرنے کے گیا ۔اور کچھ جو بھول چکا تھا ان کو دوبارہ کرنے لگا۔

۔
جسے کےکتاب بینی اس کی طرف دوبارہ آیا اور میں نے کا فی عرصے سے شروع کرنے والا ناول کائیٹ رنر ختم کیا اور اس کے افغان خالات کا تججسس بڑھ گیا اور اس کے بارے میں پڑھنے لگا۔ اور کے بعد میں نےویل ڈیورنٹ کی کتاب فلان لیف پڑھی اور اس کا بھی لطف آنے لگا اور اس میں مصنف کا زندگی ۔پیار جنگ اور خدا کے بارے میں اسکے تجربات پڑھے ۔اب اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا ۔

تفسیر پڑھی اسلام کو جاننا شروع کیا اور بہت سارا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر شاہد صدیقی کے ساری کالم پڑھنے میں مشغول رہا۔ بہت سارا مطالہ رومی کے بارے میں کیا اور ان کی روحانیت پڑھی ۔اوربہت  ڈاکومنٹری دیکھے بہت کچھ سیکھا۔۔اور کچھ اور بھی معلومات کی  وڈیو دیکھتا رہا اور اس کے ساتھ اپنے گھر کی چھت پر باغ بانی بھی شروع کیاس کی دیکھ بھال کرنے لگ جاتا ہو سکون ملتا ہے۔

اور اس کے بعد اب کوگنگ تو مجھے بہت پسند ہے کیونکہ میں کھانوں کا شوق رکھتا ہوں۔اس وجی سے کچھ نیا سیکھنے کو اور گھر والوں کو کھلا دیتا ہوں۔اور گھر والے بھی خوش رہتے ہیں ۔چونکہ میں اخبار بھی پڑھنے لگ گیا تو گھر والوں کو خبریں بھی سناتا رہتا ہوں۔
ہر چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں یہ آپ ہے کہ آپ اس میں سے مثبت پہلوں کس طرح ڈھونڈتے ہیں۔انسا ن کو خود ہی کرنا پڑتا ہے۔یہ وبا اللہ کی مرضی سے جلد ختم ہو جائیگی اور یہ اور دور تک اپنے یہ اثر چھوڑ جائگی۔۔ہمیں یہ دن یاد آیںگے کہ کیسے ایک وائرس نے سے دنیا روک سکتی ہے۔اور اس کے بعد کے ہم اللہ سے اور اپنے گھر والوں سے کتنا دور ہیں۔ اوراس سے کہ بہت کچھ ہم کرنا بھی چاہتے ہیں مگر مصروفیات کی وجہ سے کرتے ہیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :