72 سال اور مسئلہ کشمیر

پیر 3 فروری 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

پاکستان کو معرض وجود میں آے گویا آج 72 سال ہوچکے۔ہم جانتے ہیں کہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح تھے یا علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رح قائدین پاکستان نے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کی خاطر سر توڑ کاوشیں کیں۔ وہ دو قومی نظریہ کہ مسلمان اور ہندو اکھٹے نہیں رہ سکتے کیونکہ انکے رسم و رواج، رہن سہن، ثقافتی روایاتاور مذہبی روایات ایک دوسرے سے جدا ہیں گویا دو الگ نظریات کی حمل قومیں کبھی اکھٹے نہیں چل سکتی کی بنیاد اور ایک اللہ‎ کے نام پر بننے والا اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان آج 72 سال کا ہوکر بھی کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی، بیماریوں اور دال روٹی و مکان کا محتاج ہے۔


خواہ وہ 1947 میں کشمیر پر بھارت کا ہونے والا قبضہ تھا یا لارڈ ماونٹ بیٹن کی ناانصافیاں تھیں۔

(جاری ہے)

وہ ڈوگرا راج کا نام نہاد خط تھا یا پھر 1948 میں ہونے والی پہلی جنگ تھی۔ تاریخ کے اوراق کو اگر دیکھا جاے تو 1941 کے اعداد و شمار کے مطابق کشمیر کی آبادی 1941 میں 77 فیصد مسلمانوں، 20 فیصد ہندوں جبکہ 3 فیصد دوسرے مذاہب پر مشتمل تھی۔اس وقت ڈوگرا راج کا ہندوستان سے الحاق کا خط بے بنیاد تھا۔

گویا تبھی کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہوجانا چاہئیے تھا مگر 1948 کی جنگ کے بعد 55 فیصد علاقہ انڈیا جبکہ 30 فیصد علاقہ پاکستان کے پاس ہے جبکہ بقیہ 15 فیصد حصہ پر چین کا قبضہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں کشمیر کے الحاق کا فیصلہ کشمیر کی عوام کی صوابدید ہے۔
تاریخ کے اوراق کو اگر دیکھا جاۓ تو 1965 کی جنگ کی اصل بنیاد بھی کشمیر تھی۔

اس وقت جنرل ایوب خان کی سپہ سالاری میں بے شک پاکستان اپنے دفاع میں کامیاب و کامران رہا مگر آپریشن جبرالٹر اس پاۓ کا کامیاب نا ہوسکا جس حد تک اسے کامیاب ہونا چاہئیے تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر مسلے پر پاک بھارت جنگ ہمیشہ دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ رہے ہیں۔ اسی طرح 1999 کا کارگل محاذ بھی مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر تھا۔ 3 جنگوں کے باوجود آج 2020 میں بھی خطے کو کشمیر مسلے کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ 2019 میں پلوامہ مقبوضہ جموں کشمیر کے بعد پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر جنگ کے دھانے پر تھے اور 27 فروری 2019 کو جب بابھی نندن کو پاکستان نے چاۓ پلائی اور 2 بھارتی جنگی تیارے زمین بوس کیے۔ چاۓ پلانے کے بعد پاکستان نے امن کی خاطر ابھی نندن کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کے حوالے کیا۔
اس کے بعد 5 اگست 2019 بھارتی لوک سبھا نے تاریخ کا وہ سیاہ باب رقم کیا جس نے اقوام عالم میں بھارت کا منہ کالا کیا۔

آرٹیکل 370 کے خاتمہ و ترمیم کے بعد کشمیر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا اور آج دن تک لاک ڈاؤن  کر رکھا ہے خواہ وہ انٹرنیٹ کی بندش ہے یا اسکول، کالجز، دفاتر و بینک کی بندش آج دن تک لاک ڈاون ہے۔ آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد اب ہندو (بھارتی) لوگ بھی کشمیر میں جگہ خرید سکیں گے اور رہائش اختیار کرسکیں گے اسی طرح اس ترمیم سے کشمیر نام نہاد جمہوری بھارت کا حصہ ہوگا۔

اس ترمیم کی اصل وجہ کو دیکھا جاۓ تو وہی 1941 کے اعداد و شمار کو یکسر بدلنا ہے تاکہ جب بھی استصواب رائے ہو تو لوگ بھارت کا ساتھ دیں۔موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو کافی اجاگر کیا۔ شائد 1970 کی دہائی کے بعد کسی حکومت نے کشمیر مسئلہ پر اتنی توجہ دی ہوگی۔ ڈونلڈٹرمپ سے ملاقاتیں تھیں یا ثالثی۔ وہ اقوام متحدہ سے دبنگ خطاب تھا یا پھر 25 جنوری سے 5 فروری تک 10 روزہ کشمیر مہم کا اعلان۔

ہر سطح پر کشمیر کے سفیر نے کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا۔ اب 5 فروری کو مظفر آباد جلسہ عام سے وزیراعظم کے خطاب پر دنیا منتظر ہے۔ 5 فروری کو جہاں وزیراعظم خطاب کریں گے وہیں پورے ملک میں عام تعطیل ہوگی۔ملک بھر میں یکجہتی کشمیر مظاہرے ہوں گے اور پاک کشمیر ملانے والے پلوں پر انسانی ہمدردی کی زنجیریں بنائی جائیں گیں۔ اب دیکھنا یہ کہ اس یوم یکجہتی کشمیر پر پاکستان بھارت اور عوام مقبوضہ جموں کشمیر کو کیا پیغام دیتا ہے۔

دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا خطاب و احتجاج سے کشمیر آزاد ہو جاۓ گا؟ کیا عمل ایسا ہوگا جس سے عوام کشمیر کو سکون کا سانس مل سکتا ہے؟ یقینا" اب کشمیر پر مضبوط خارجہ محاذ کھولنے کی ضرورت ہے۔امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔اؤ۔آئ۔سی کا اجلاس  ہو یا دنیا کو کشمیر محاذ پر یکجا کرنا بھی پاکستان کی ذمہ داری ہے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دفتر خارجہ کو مضبوط و مستحکم بنایا جاۓ۔جہاں وزیر خارجہ مقرر کیا ہے وہیں ڈپٹی وزیر خارجہ بھی مقرر کیا جاۓ اور تمام ممالک کے سفرا کو ایکٹو کیا جاۓ تاکہ اقوام عالم کشمیر مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :