ظلمتوں کے ستائے اہل کشمیر

بدھ 30 جنوری 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

شاید عالمی ضمیر نقطہ انجماد سے بھی کہیں نیچے چلا گیا ہے، ظلم و جبر کے گھناؤنے خدوخال مسلسل دیکھ کر آنکھیں اس کی عادی ہو چکی ہیں۔ ظلم کی سنگین راتیں طویل ترین ہو جائیں تو دنیا بھی بے رغبتی اور بے حسی کی چادر تان کر سونے لگتی ہے۔ برفاب وادیوں میں بسے ان لوگوں کی روداد اتنی دل فگار تلخیوں میں ڈھلی ہے کہ دل دہل جاتے ہیں مگر ظلمتوں کے ستائے وہ لوگ آج تک وحشتوں سے نہیں گھبرائے، اگرچہ گزشتہ سال بھی 95 سرچ آپریشنز میں ان کے 120 مکانات منہدم کر دیئے گئے۔

بین الاقوامی تنظیم برائے انصاف اور انسانی حقوق کے مطابق سال 2018ء میں بھارتی فوج نے 355 شہریوں کو شہید کر ڈالا۔ ان میں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کشمیریوں کے سکول جاتے بچے بھارتی فوجی اٹھا لے گئے اور واپس ان کی لاشیں آئیں، باوجود اس کے کہ ان کے تین پی ایچ ڈی سکالرز تک کو شہید کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

اس قدر کھردری اور جانکاہ اذیتوں کے باوجود آزادی کے جوش و جنوں میں طغیانی اور جولانی مدھم پڑ سکی نہ پاکستان کے ساتھ ان کی محبتوں میں کوئی خلل پڑا، اگرچہ پیلٹ گنوں سے ان کی بصارت چھپنی جا رہی ہے۔

صرف سری نگر کے ایک ہسپتال میں 117 ایسے کشمیری داخل ہو چکے ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ گنوں کے چھروں سے زخمی تھیں، پیلٹ گن کے ایک کارتوس میں 500 چھرے ہوتے ہیں جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے چاروں طرف بکھر جاتے ہیں مگر جبر وتشدد کے یہ سنگین ضابطے بھی آزادی کے لئے ان کی استقامت میں کوئی کمی کجی نہ لا سکے۔
کلیجے کرب سہتے سہتے چھلنی ہو گئے ہیں
مگر اب کیا کریں ہم ا سکے عادی ہو چکے ہیں
27 اکتوبر 1947ء کو مہاراجا ہری سنگھ نے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بھارت کیساتھ الحاق کر لیا جس کی وجہ سے پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی، پاکستان جیت رہا تھا، بھارت شکست خوردگی کے عین قریب تھا کہ یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے مداخلت کی، سلامتی کونسل نے ایک قرار داد میں پاکستان اور بھارت کو کشمیر سے اپنی اپنی فوجیں نکال کر کشمیریوں کی مرضی اور خواہش جاننے کیلئے رائے شماری کرنے کو کہا، پاکستان نے اپنی فوج واپس بلا لی مگر پنڈت جواہر نہرو نے اپنی فوج واپس بلائی نہ رائے شماری کا وعدہ پورا کیا۔

سات دہائیاں بیت چلیں اقوام متحدہ کب کی اپنی قرار داد کو بھول چکی۔ بھارتی جبر اور قہر اہل کشمیر کے جیون میں اندوہناک تلخیاں گھول چکا، بھارتی ظلم کی داستان اس قدر بھیانک ہو چکی ہے کہ گزشتہ سال دو ذہنی مریض کشمیریوں کو بھی شہید کر دیا گیا ہے۔ آج ہم آزاد فضاؤں کے پنچھیوں کو ذرا غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ان کشمیریوں کے کرب کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جو آزادی کی اس کہانی اور سفر میں ہمارے ہمرکاب تھے۔

قصہ گو تو نے فراموش کیا ہے، ورنہ
اس کہانی میں ترے ساتھ کہیں تھے ہم بھی
کشمیر کی وادیاں جتنی حسن و جمال سے آراستہ اور دل آویز ہیں وہاں کی شہزادیاں آج اتنی ہی دل گرفتہ اور دل گیر ہیں، کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں کہ ان کے جیون ساتھیوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیاں اٹھا لے گئیں۔ برسوں بیت جانے کے باوجود پتا ہی نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے، اپنے خاوندوں کے انتظار میں وہ نیم بیوہ عورتیں جیتی ہیں نہ مرتی ہیں، یہ گھناؤنا روگ ان کے سارے جیون کو چاٹتا جا رہا ہے مگر زندگی اور امید کے اس نیم وا جھروکے میں بھی وہ حصول آزادی اور اہل پاکستان کی محبتوں کو اپنا حاصل زندگی ٹھہرا کر زندہ ہیں۔

کسی ایک کشمیری کو بھی اندر سے پھرول اور ٹٹول کر بھارتی ظلم و ستم کو دیکھیں تو آپ کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جائیں گے مگر شوریدہ سر اہل کشمیر کی زیست کا مقصد فقط آزادی کا حصول ہے۔
اہل کشمیر آزادی کی راہوں پر ستر سالوں سے نہ صرف استقامت کے کوہ گراں بنے ہوئے ہیں بلکہ بنا کسی ابہام کے پاکستان کی محبتوں کی حلاوتوں میں بھی گندھے ہیں۔ آیئے! ہم اپنی ذات کے بھنور اور حصار سے باہر نکل کر دیکھیں کہ کشمیریوں کے لئے ہمارے جذبات و احساسات نے کس قدر اور کس نوع کی چھب دکھلائی؟ جب ہم خوب جانتے ہیں کہ رگ جاں کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کو ہم نے اپنے جذبات کے سرد خانے میں کیوں ڈال رکھا ہے۔

پھر کبھی کبھی مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کشمیر میں ظلم و ستم دیکھ کر اس کے عادی ہو چکے ہیں پھر کبھی کبھی یہ گماں میرے در احساس پر بڑی زور سے دستک کیوں دیتا ہے کہ ہمارا میڈیا اب اس مسئلے میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ پھر کبھی کبھی یہ احساس کیوں میرے سامنے چھاتی تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ ہمارے احباب بست و کشاد کی نظریں مسئلہ کشمیر سے بھٹکتی جا رہی ہیں۔

اگر ہم پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو اپنی شہ رگ کشمیر کی وحشتوں میں اس کا ساتھی بننا ہو گا، وہ جو ہماری محبتوں کے امین ہیں، زبان حال ہو یا قال وہ ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور ویسی ہی محبتوں کے طلب گار ہیں جیسی ان کے پیمانہ دل میں ہمارے لئے چھلک چھلک جا رہی ہیں۔ 
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :