”مسلمانوں کی قتل گاہ...برما“

جمعرات 19 ستمبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

کتنے ہی مہیب درد ہیں جو میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔کتنے ہی خوں چکاں مناظر میرے دل میں جذب ہو کر رہ گئے ہیں۔کرب اور اضطراب کا ایک بے کراں طوفان میرے حجرہ ء ذات میں ٹھہر سا گیا ہے۔چھنال رُتوں نے برما کے مسلمانوں کے بدن چھید ڈالے تھے۔قزاق موسموں بے روہنگیا کے مظلوموں کو مسموم کر کے رکھ دیا تھا۔انھی چیختے چلّاتے اور کلیجوں کو چیرتے زخموں کا نوحہ جناب فاروق عزمی نے ''مسلمانوں کی قتل گاہ.. برما'' کے نام سے ترتیب دیا ہے۔

حرماں نصیب روہنگیا مسلمانوں نے بھی عجیب درد آلود موسم جھیلے ہیں۔بے بسی اور بے چارگی ہوں یا ہجرتوں کے عذاب، آگ میں جلنے جیسے بھیانک آزار ہوں یا نحیف و نزار وجود پر وبائی حملوں کی یلغار، محمد فاروق عزمی نے تمام دکھوں کو یکجا کر کے امتِ مسلمہ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شاید کوئی بے مہر حکمران برما کے مسلمانوں کی داد رسی پر آمادہ ہو جائے۔

(جاری ہے)

کشمیر سے لے کر فلسطین تک، افغانستان سے لے کر برما تک مسلمان لیرولیر اور حال فقیر بنے، آہ و فغاں کرتے زندگی کے بوجھ سے آزاد ہوتے چلے گئے مگر آج تک کوئی پرسانِ حال نہ ہوا۔
مڑ کے دیکھا تو ہمیں چھوڑ کے جاتی تھی حیات
ہم نے جانا تھا کوئی بوجھ گرا ہے سر سے
فاروق عزمی جیسے قبیل سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے قلم سے دردوں بھری پٹاری صرف اسی امید پر کھول کر رکھ دیتے ہیں کہ آج نہ سہی تو کل، کوئی تو مظلوموں کے درد کا درماں کرنے چلا آئے گا۔

کوئی تو اٹھے گا جو المیوں اور سانحوں کو ہمیشہ کے لیے کھدیڑ دے گا۔معتبر اور باوقار قلم کار وہی تو ہوتا ہے جو آس، امید اور آرزوؤں کی لو جلائے۔جو خواہشوں اور حسرتوں کے چراغ روشن کرے۔
زندگی ہے تو سحر بھی ہو گی
اے شبِ غم یہ مرا دعوی ہے
انتساب، تاریک راہوں میں مارے گئے ان بے گناہ مسلمانوں کے نام ہے جن کا درد کسی نے محسوس نہ کیا مگر فاروق عزمی نے اس کرب کی ہرچیخ اور ہر سسکی کو اپنے دل میں اتار کر صفحہ ء قرطاس پر منتقل کر دیا۔

سوختہ جبینوں کا درد لکھتے اور سفاک اندھیروں کا ظلم و جبر تحریر کرتے وقت انسان کی آنکھیں بھیگتی چلی جاتی ہیں۔کتنی ہی بار جذبات و احساسات آنکھوں کے راستے چھلک پڑتے ہیں۔کتنی ہی بار نوکِ مژگاں سے لے کر نوکِ قلم تک سناٹے میں آ جاتی ہیں۔خود مصنف کے بہ قول”برما کی تاریخ کا بد ترین تشدد جاری ہے۔میں نے یہ کتاب بے حد دکھی دل کے ساتھ مرتب کی ہے۔

میں برما کے دل دوز واقعات پر کبھی پہروں سکتے کی کیفیت میں رہا ہوں، کبھی رویا ہوں، کبھی تڑپا ہوں“ میانمار کے تعارف سے لے کر بدھ مت کی تعلیمات تک، پاکستان میں بدھ مت کے آثار سے لے کر مسلمانوں کے مسائل تک، برما میں قتل عام کی تاریخ سے لے کر مسلم امہ کی خاموشی تک، اور اسلامی تنظیم او آئی سی کی سرد مہری سے لے کر پاکستان میں احتجاج تک، 208 صفحات پر پھیلے اس دل سوز المیے کا ایک ایک لفظ حزن و ملال اور خونِ جگر میں ڈوبا ہے۔

اس بھیانک مسلم کشی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی مہر بہ لبی، بہ ذات خود ایک المیہ ہے۔دنیا کا وہ کون سا خطہ اور گوشہ ہے جہاں مسلمان مجبورومقہور نہیں؟ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دھجیاں کہاں نہیں اڑائی جا رہیں؟مگر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ جہاں جہاں مظلوم مسلمان ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے انھیں دہشت گرد کہ کر ان کے ٹیٹوے پر انگوٹھا دھر دیا گیا۔


ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے
عدم تشدد کے فلسفے کو مہاتما بدھ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔مہاتما بدھ کے مطابق کسی جانور کو بھی قتل کرنا، انسانی قتل کے مترادف ہے۔ مگر مسلمانوں کی دل دوز قتل و غارت گری پر اشین وارتھو اور آنگ سان سوچی کے لبوں پر پھیلی شیطانی مسکراہٹ اس فلسفے کی مکمل طور پر نفی کرتی ہے۔

جائے اماں کو کھوجتے پھرتے روہنگیا مسلمانوں کے کسی درد کا مداوا کسی سے نہ ہو سکا۔ساری دنیا میں فقط 35 کروڑ بودھ آباد ہیں مگر ڈیڑھ ارب مسلمان، برما کے مظلوموں کو تڑپنے اور مرنے کے لیے تنہا چھوڑ چکے ہیں۔
جو ہیں مظلوم ان کو تو تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں
یہ کیسا شہر ہے ظالم کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں؟
وہ گوتم بدھ جو امن و سکون تلاشنے کے لیے ویرانوں اور جنگلوں میں ریاضتیں کرتا رہا، وہ بدھ مت کے پیروکار جو آج بھی اس بات کے داعی ہیں کہ ان کا مذہب انھیں سختی سے ہدایت دیتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اپنے پاؤں بھی زمین پر زور سے نہ رکھیں مبادا کیڑے مکوڑے کچلے جائیں۔

شانتی اور آشتی حاصل کرنے کے لیے مراقبے کرنے والے وہ لوگ، مسلمانوں کو وحشیانہ طریقے قتل کرنے لیے اپنے مذہب کا ہر اصول اور ہر ضابطہ تک پامال کر چکے۔وہ اتنے سنگلاخ دل ہو چکے کہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا، بیلچوں کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور گاؤں کے گاؤں جلا کر خاکستر کر ڈالے۔مگر ان کے دلوں میں کیڑے مکوڑے کچلے جانے جتنے خفیف احساس کی رمق تک بھی پیدا نہ ہوئی۔


نا انصافی ہر جانب ہے ہر سو ظلمت ہی ظلمت
دیکھ کے یہ سب کیوں سب چپ ہیں کہتے حق کی بات نہیں
انتہائی دھیمے لب و لہجے کے حامل علامہ عبدالستار عاصم بھی عجب صاحبِ کمال نباض ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسی سوغات کھوج لاتے ہیں کہ جس میں امت مسلمہ کا ایسا درد پنہاں ہوتا ہے جو قاری کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم ہوں یا”مسلمانوں کی قتل گاہ... برما“ کے مصنف محمد فاروق عزمی، ملت اسلامیہ کو بیدار کرنے کے لیے اپنا فریضہ نبھاتے چلے جا رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم ہم کنجِ تغافل سے کب نکلیں گے؟ ہم ہمہ قسم کے جبرواستبداد کو دیکھ کر بھی صرف اقوام متحدہ کے سامنے ہی احتجاج کرنے کی لت کو کب خیر باد کہیں گے؟ بہ حثیت قوم ہم بھی سوچیں اور بہ حیثیت حکمران ہمارے سیاسی زعما بھی مسلمانوں کی زبوں حالی پر غور کریں کہ آج انصاف پا بستہ ہے، سچ اور حق پا بہ زنجیر ہیں اور ظالم ہیں کہ دندناتے ہیں۔
سچ جہاں پابستہ، ملزم کے کٹہرے میں ملے
اس عدالت میں سنے کا عدل کی تفسیر کون؟
نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خوابوں کی دے تعبیر کون؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :