اب اِس کے بعد گھبرانا ہے تم کو

جمعرات 2 جولائی 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

ہم کتنے خرخشوں میں گِھر چکے ہیں۔ہم جسم وجان کے لیے عذاب بنے کتنے ہی سرابوں کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔چنڈال رُتیں ہماری جبینوں پر مستقل طور اداسیاں اور مایوسیاں کھود دینے پر تُلی بیٹھی ہیں۔صرف کورونا ہی اپنے دانتوں کو کٹکٹاتے ہوئے ہمیں تنہائی کی اذیتوں میں دھکیلنے کے در پَے نہیں، درجنوں آزار ایسے ہیں جو ہمارے سیاست دانوں اور افسروں نے ہم پر مُسلّط کر رکھے ہیں۔

مہنگائی کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا ہے۔آٹا اور چینی کی قلّت ہر فرد کے لیے اذیت بن چکی ہے۔پٹرول کی ایذائیں ہر شخص کے حواس مختل کیے جا رہی ہیں۔عالمی منڈی میں پٹرول بے وقعت ہو چکا تھا جب کہ پاکستان میں لوگ، پٹرول کی کھوج میں دن رات سرگرداں نظر آ رہے تھے۔پٹرول پمپس کے باہر لوگوں کے ہجومِ بے کراں، پٹرول کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے مگر نگوڑے پٹرول کا ہجروفراق طویل ہوتا جا رہا تھا کہ اچانک پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اور پھر ہر پٹرول پمپ پر پٹرول ملنے لگا۔

(جاری ہے)

معیشت کا بَھٹّا بٹھا دیا گیا۔ڈالر کو ببر شیر بنا کر، روپے کو کھسیانی بلّی کی طرح کھمبا نوچنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ایک کروڑ نوکریوں اور غریبوں کے لیے گھروں کے وعدے تو کب کے کسی تپتے اور جُھلستے دشتِ بے اماں کی خوراک بن چکے۔کشمیر کے مسئلے کا کچھ اتا پتا نہیں کہ کشمیریوں کے درد، اُن کی آہیں اور سسکیاں سب کچھ پسِ منظر میں دھکیل دی گئیں۔

یہاں وقفے وقفے سے عوام کے نحیف ونزار وجود پر چرکے لگائے جا رہے ہیں۔کچھ لوگ ابھی تک موجودہ حکومت کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے سو وہ طوعاً او کرہاً حکومت کی ناکام پالیسیوں کے بھی فضائل ومناقب بیان کرتے نہیں تھکتے۔کتنے ہی بھیانک آسیب مسلّط کر دیے جائیں کچھ لوگ ان آلام میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ڈھونڈ لاتے ہیں۔وفاؤں کی یہ بھیانک قِسم دنیا میں کہیں بھی تو موجود نہیں جو پاکستان کے ہر سیاسی کارکن کے دل میں اپنی اپنی پارٹی کے لیے موجود ہے کہ خاک میں مل جانے تک یہ لوگ اپنی سیاسی پارٹی ہی کے گُن گاتے نظر آتے ہیں۔

منور رانا نے کیا خوب صورت شعر کہا ہے کہ
مٹّی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا
اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا
یہ حقیقت ہے کہ حکومت کو ناکام کرنے کے لیے وزیر اور بیوروکریٹس ایڑی چوٹی تک کا پورا زور لگا رہے ہیں۔آخر کب تک عوام تبدیلی کے خوش نما خواب میں دھنسے رہیں گے۔یہاں کبھی تو ٹماٹر کو اعلی منصب پر فائز کر کے نایاب کر دیا جاتا ہے تو کبھی لیموں کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگتی ہیں اور جب انھیں بے توقیری کی خاک میں ملایا جاتا ہے تو پھر دس روپے کلو لینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

اعتدال کی راہوں سے رُوگردانی قوم کو مسلسل ذہنی خلفشار میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔دو سال ہونے کو آئے ابھی تک کوئی نوید افزا کلی نہیں کِھل سکی۔کسی مسرّت آمیز غنچے نے ابھی تک اپنے لبوں پر تبسّم نہیں بکھیرے۔وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر وہی نعرہ بہ بانگِ دہل لگایا ہے کہ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔وہ جنھیں”مافیا کی سب سے خطرناک قِسم“ کہا جاتا تھا وہ تو لندن کے اطلسِ کمخواب میں محوِ عیش و عشرت ہیں۔

جب موجودہ حکومت اُنھیں لندن جانے ہی سے نہ روک سکی تو اور کون سے مافیا کو”نہ چھوڑنے“کی دھمکیاں دے کر ڈرایا جا رہا ہے؟
آٹا اور چینی کے بحران کے باعث وزیر اعظم کے حکم پر ہٹائے گئے گریڈ 22 کے بیوروکریٹ ہاشم پوپلزئی کو پھر نیا عہدہ دینے کی خبریں گردش میں ہیں۔اسے ایم ڈی پیپرا تعینات کرنے کا فیصلہ واپس لے کر وفاقی سیکرٹری برائے وزارت اوور سیز ڈویژن لگا دیا گیا ہے۔

یعنی وزیر اعظم کے حکم کو بھی در خورِ اعتنا تک نہیں سمجھا جا رہا۔
9 آئل کمپنیوں کو مصنوعی بحران پیدا کرنے کی پاداش میں اُن کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا مگر اچابک ہی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے انھیں بے انتہا فائد پہنچا دیا گیا۔سوال یہ پیدا کورونا کے تلخ اور جاں گسل ماحول میں ساری قوم کو پٹرول کی اذیت میں مبتلا کرنے والے ان پٹرول مافیا کو پسِ دیوار زنداں بند کیوں نہ کیا گیا؟ قومی مجرموں کے ساتھ اتنی رحم دلی آخر کس لیے برتی گئی ہے؟
دو سال قبل جب قوم کو کہیں بھی جائے اماں نظر نہیں آ رہی تھی تو پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کو برگد سمجھ کر اس کی چھاؤں تلے بیٹھ گئی تھی کہ شاید تبدیلی کا کوئی ایک آدھ نشاط انگیز جھونکا کسی دریچے سے نمودار ہو جائے، قوم کی آنکھیں پتھرا چکیں مگر بادِ بہاری کا احساس تک معدوم ہو چلا ہے۔

اب تو قوم میں یہ احساس شدّت سے انگڑائی لینے لگا ہے کہ موجودہ حکومت سے تو سابقہ حکومتیں ہی بہت بہتر تھیں۔
ہمارے دریاؤں کی طغیانی اور اٹکھیلیاں کب کی دم توڑ چکی۔ہماری چنچل نہروں کی مستی کب کی رَیت کے سانچے میں ڈھل کر ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ہمارے ڈیمز کی تعمیر کا سپنا کب کا قصّہ ء درد بن کر ہمیں آٹھ آٹھ آنسو رلا رہا ہے۔اگر آپ خوش گمانیوں کے لق ودق صحرا سے باہر تشریف لے آئیں تو اتنا ضرور کہوں گا کہ”عمران خان تو ایمان دار ہے“ جیسے راگ درباری سے کچھ تبدیلی نہیں آنے والی۔

جب عمران خان کے اردگرد وہی مُورتیں اور صُورتیں موجود ہیں، سابقہ حکمرانوں کے گرد جن کا جمگھٹا تھا تو آخر تبدیلی کس طرح آ سکتی ہے؟ ہم تو خوف اور گھبراہٹ کی آخری دہلیز پر آ کھڑے ہوئے ہیں کہ اب اس سے زیادہ ہراس کی گنجایش ہی باقی نہیں رہی لیکن بالآخر ان آنکھوں کو بھی گھبرانا ہی پڑے گا جو بہ ہر طور عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں۔شکیل اعظمی نے کیا خوب کہا ہے کہ
میں اپنے خوف کی حد پر کھڑا ہوں
اب اِس کے بعد گھبرانا ہے تم کو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :