اشعار کی صحت

جمعہ 25 ستمبر 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

کالموں میں بِنا کسی تحقیق اور چھان پھٹک کے اشعار لکھنے کی رَوش اتنی عام ہو چکی ہے کہ سینئر کالم نگار بھی اس طرف دھیان دینے پر آمادہ نہیں۔حالاں کہ تھوڑی سی کوشش سے درست شعر کی کھوج لگائی جا سکتی ہے۔ہر روز اخبارات ایسے کالموں سے بھرے ہوتے ہیں جن میں اشعار کی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔
24 اگست کو ہارون الرّشید اپنے کالم میں یہ شعر لائے ہیں۔


آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
میر تقی میر کے دونوں مصرعے غلط تحریر کیے گئے ہیں۔”کلیات میر“کے مطابق درست شعر ملاحظہ کیجیے۔
چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
جولائی کے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں عافیہ جہانگیر کے مرتّب کردہ”شعروسخن“ کے صفحات نظروں سے گزرے۔

(جاری ہے)

سیّد ضمیر جعفری کا یہ شعر غلط لکھا گیا ہے۔
ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کے بجائے
توپ کے دھڑ، بم کے دھڑ، راکٹ کے سر پیدا کرو
سیّد ضمیر جعفری نے ایسا بالکل نہیں کہا۔اُن کی یہ نظم”پیدا کرو“ اُن کی کتاب”مافی الضمیر“ میں موجود ہے۔اس کے مطابق صحیح شعر اس طرح ہے۔
ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے
توپ کے دھڑ، بم کے سَر، راکٹ کے پَر پیدا کرو
15 اگست کو آصف محمود کے کالم ترکش سے نکلا ہوا تیر غلط نشانے پر لگا اور کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا کے مصداق شعر کا مفہوم بالکل ہی غلط ہو گیا۔

انھوں نے جگر مراد آبادی کے شعر میں یوں تحریف کر دی ہے۔
 ہجر نے تو ترا اے شیخ بھرم کھول دیا
تُو تو مسجد میں ہے، نیّت تری مے خانے میں
جگر مراد آبادی نے اس شعر میں ہجر کی بات تک نہیں کی اور نہ یہاں شیخ کا بھرم کھولنے کے لیے ہجر کا کوئی تُک بنتا ہے۔جگر مراد آبادی کی کتاب”شعلہ ء طور“ میں موجود اس شعر کے درست مصرعے سے لطف اٹھائیے۔


ہجوِ مے نے ترا اے شیخ بھرم کھول دیا
25 اگست کو روزنامہ جنگ میں ڈاکٹر فوزیہ تبسّم نے یہ شعر لکھا ہے۔
کوئی اگر طلب کرے تجھ سے علاج تیرگی
 صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
یہ شعر پیر زادہ قاسم کا ہے اور اُن کتاب”تُند ہَوا کے جشن میں“(جنوری 1990) کے صفحہ نمبر 129 پر موجود ہے۔

شعر کا پہلا مصرع اس طرح ہے۔
شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ تیرگی
25 اگست کو چودھری عبدالغفور خان اپنے کالم”راہِ چمن“ میں یہ شعر لائے ہیں۔
آئے تو یُوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
 بُھولے تو یوں کہ کبھی آشنا نہ تھے
دوسرا مصرع وزن سے خارج کر دیا گیا ہے۔فیض احمد فیض کی کتاب”زنداں نامہ“ کے مطابق درست مصرع یوں ہے۔


بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
27 اگست کو ہارون الرّشید نے اپنے کالم میں پانچ اشعار لکھے ہیں جن میں سے چار اشعار بالکل غلط تحریر کیے گئے ہیں۔میں سمجھتا پوں کہ یہ تغافل شعاری کی بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔پہلا شعر دوبار غلط لکھا گیا ہے۔
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
”کلیات سودا“ میں محمد رفیق سودا کے اس شعر کا دوسرا مصرع درحقیقت اس طرح ہے۔


کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
ہارون الرّشید نے میر تقی میر کے اس ضرب المثل شعر کا پہلا مصرع بھی بالکل ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشم گریہ ناب
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
جب کہ کلیات میر تقی میر میں مصرع یوں موجود ہے۔
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
ہارون الرّشید کے کالم میں موجود تیسرا شعر بھی ملاحظہ کر لیجیے۔


کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
باقی صدیقی کی کتاب”کتنی دیر چراغ جلا“ کے صفحہ 85 پر پہلا مصرع یوں موجود ہے۔
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
ہارون الرّشید اگلا شعر اس طرح تحریر کرتے ہیں۔
 بجلیاں ہیں، زلزلے ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
بانگِ درا میں علامہ محمد اقبال کی نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ کے مطابق پہلے مصرعے کی ترتیب یوں ہے۔


زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
5 ستمبر کو مفتی منیب الرّحمان اپنے کالم”زاویہ ء نظر“ کے آخر میں حضرت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر لائے ہیں۔
گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ وفرات
قافلہ ء حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
علامہ محمد اقبال کا یہ شعر اُن کی نظم”ذوق شوق“ میں موجود ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے اس شعر میں دو بڑی غلطیاں کی ہیں۔پہلی یہ کہ مصرعوں کی ترتیب میں گڑبڑ کر دی ہے۔یعنی پہلا مصرع دوسرا اور دوسرا مصرع دراصل پہلا ہے۔اور دوسرا مصرع بھی یوں ہے۔
 گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات
7 ستمبر کو ہارون الرّشید نے اپنے کالم میں حضرت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر تحریر کیا ہے۔


کیونکر خس وخاشاک سے ڈر جائے مسلمان
مانا وہ تب وتاب نہیں اس کے شرر میں
ہارون الرّشید صاحب نوٹ فرما لیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب بالِ جبریل کی نظم”ہسپانیہ“ کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں”ڈر جائے“ کی جگہ”دب جائے“کہا ہے۔
7 ستمبر کے کالم”میری آواز“ کے آخر میں مریم ارشد نے افتخار عارف کے چار اشعار میں سے دو بے وزن کر دیے ہیں۔


یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں
 جو ہم یہاں کے نہیں تو پھر کہیں کے نہیں
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔افتخار عارف کی کتاب”جہانِ معلوم“ میں یہ مصرع یوں موجود ہے۔
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پھر کہیں کے نہیں
مریم ارشد نے اس شعر کا بھی دوسرا مصرع بے وزن کر دیا ہے۔
میں نے ایک اور بھی محفل میں اِنھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں سب تیرے نہیں
جب کہ درست مصرع اس طرح ہے۔


یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
7 ستمبر کو فاروق عالم انصاری نے اپنے کالم”خامہ بستی“ کے آخر میں یہ شعر لکھ دیا ہے۔
بات دل سے زباں پہ آتی ہے
بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟
دراصل یہ مقطع حفیظ ہوشیاری کا ہے۔ڈاکٹر قرة العین طاہرہ کی مرتّب کردہ کتاب”منتخب کلام حفیظ ہوشیارپوری“میں اس مقطعے کا پہلا مصرع یوں ہے۔


دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
اشعار کی صحت کے گذشتہ کالم میں دو مصرعوں کی تصحیح شائع ہونے سے رہ گئی اس لیے ریکارڈ کی درستی کے لیے دونوں مصرعے مکمل اشعار کے ساتھ حاضر ہیں۔پہلا شعر میر تقی میر اور دوسرا شعر علامہ محمد اقبال کا ہے۔ویسے 9 ستمبر کو محمد اسلم خان کی چوپال میں میر تقی میر کا یہ شعر پھر غلط لکھ دیا گیا ہے۔درست اشعار نوٹ فرما لیں۔
 میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
 اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
 بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :