اگلا روس کون ، چین یا امریکہ

جمعرات 12 دسمبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

دوسری جنگ عظیم کے بعد دو بڑئے ممالک، امریکہ ،روس میں نمبر ون کی دوڑ شروع ہوچکی تھی۔ یہ ایک طرح کی کشتی ہی تھی جس میں کسی ایک فریق کو ہر حال میں ہارنا تھا یا ہار ماننی تھی۔ ایک طرف امریکہ بہت سی ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی زمین کووسعت دے رہا تھا تو دوسری طرف روس بھی بہت سے ممالک پر جابرانہ قبضہ جمارہا تھا۔ اسلحے کی دوڑ میں بھی دونوں ممالک ہم پلہ تھے۔

مزئے کی بات تو یہ ہے کہ دونو ں ممالک ٹیکنالوجی میں بھی تقریبا ایک سے چل رہے تھے۔ اور پھر امریکہ نے ویتنام جنگ میں چھلانگ لگائی۔ ویتنام جنگ کو دوسری انڈو چائنا جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ دراصل آزادی پسندوں کی امریکہ کے خلاف تھی۔ امریکی نواز امریکہ کے ساتھ مل کر حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے تو دوسری طرف آزادی پسند اپنی کوششوں میں جھٹے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

اور پھر امریکہ کو ایک بڑئے نقصان کے ساتھ اس جنگ میں ناکامی ہوئی۔ امریکہ کو جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ساخ کا بھی نقصان اُٹھانا پڑا۔ کچھ دانشو اور محقق تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی شکست میں روس کا ہاتھ تھا۔ امریکہ اس زخم کو مندمل کرنے کی کوششوں میں مسلسل لگا رہا۔ اور اس تاک میں تھا کہ کب موقع ملے وہ اس کا بدلہ روس سے لے۔

جنگ دراصل دو بڑوں کے خلاف تھی مگر اس کا خمیازہ چھوٹے ممالک کو اُٹھانا پڑا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بڑئے ممالک بھی نقصان میں رہے۔ لیکن ان کا نقصان اتنا بڑا نہیں تھا۔
خیر روس کے خلاف امریکہ کو افغانستان میں بدلہ چکانے کا موقع ملا۔ کہتے ہیں افغانستان ہمیشہ باہر کے حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے آفغانی خود ہی بیرونی حملہ اوروں کو حملے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔

یہ ساری مفاد اور اقتدار کی لالچ ہی تھی جو آج بھی افغانستان جنگ کی حالت میں ہے۔ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ہر طرف کھنڈرات ہی کھنڈرات نظر آتے ہیں۔ جب روس کو افغانستان سے ہی افغانستان پر حملے کی دعوت دی گئی۔ تو روس بھی بلا سوچے سمجھے اس جنگ میں کود گیا۔ روس کو اندازہ نہیں تھا کہ اس جنگ میں اس کو کتنا نقصان ہونے والا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر روس افغانستان پر حملہ نا کرتا تو آج واحد سپر پاور ہوتا۔

افغانستان پر حملے کے نتیجے میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا بدلہ چکانے کا۔ لہذا امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر مجاہدین کی اسلحے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کی۔ یہ وہی مجاہدین ہیں جو کبھی امریکہ کی آنکھ کا تارا ہوا کرتے تھے۔ وہی اسامہ جس پر تاریخ کا سب سے بڑا انعام مقرر کیا گیاکبھی امریکہ کے لیے پسندیدہ ترین ہستی تھا۔

روس افغانستان میں جنگ چھیڑ کر بری طرح پھنس چکا تھا۔ آخر کار روس کو افغانستان سے بھاگنا پڑا۔ اس کا ہار کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس ٹکڑئے ٹکڑئے ہوگیا۔ اور سپر پاور کی دوڑ سے نکل گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پھر دوبارہ پیرو ں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہاہے۔
اب آتے ہیں چین اور امریکہ کی طرف۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ چین اور امریکہ ابھی تک کسی بھی ممالک میں ایک دوسرئے کے مقابل نہیں آئے۔

لیکن چاپان اور ہانگ کانگ کو لے کر چین امریکہ سے کافی ناراض ہے۔ دورسری طرف امریکہ ایران اور چند دوسرئے ممالک میں چین کی مداخلت پر سیخ پاء ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ ممالک بھی کسی جگہ ایک دوسرئے کے خلاف مالی اور اسلحے کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس دفعہ روس کون بنے گاامریکہ یا چین۔ حقائق دیکھیں جائیں تو دونوں ممالک میں واحد سپر پاور کی دوڑ چل رہی ہے۔

دونوں کی کوشش ہے کہ پہلے معاشی تور پر ایک دوسرئے کو نقصان پہنچایا جائے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ معاشی ترقی میں بھی امریکہ کے ہم پلہ چل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور اسلحے میں بھی امریکہ سے کم نہیں۔ دوسری طرف امریکہ کو مختلف ممالک میں جنگوں کا تجربہ ہے۔ سول وار کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اس کی اجارہ داری ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ کیا دونوں ایک دوسرئے سے بچ کر نکلتے ہیں یا کسی مقام پر ایک دوسرئے کے سامنے آتے ہیں۔

ٹیکسوں کی جنگ تو دونوں ممالک کی ایک عرصے سے چل رہی ہے اور بیانات کی حد تک بھی دونوں کافی تیز جارہے ہیں۔ چائنہ پاکستان اکنامٹ کوریڈور کے لے کر بھی امریکہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرچکا ہے اور چین اس کے اعتراضات کو بری طرح مسترد کر چکا ہے۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دونوں کی جنگ تیسری عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ جنگ ایٹمی جنگ ہوگئی کئی ممال صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

بڑئے ممالک تو ہوسکتا ہے اپنے آپ کو کسی حد تک محفوظ رکھ پائیں مگر ان کے اتحادی بڑا نقصان اُٹھائیں گے۔ پوری دُنیا ایک نئے روس کے انتظار میں ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ وہ امریکہ ہوتا ہے یا چین۔
ان کے اتحادیوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ دوبڑوں کی جنگ میں وہ کیا کھوتے ہیں یا کیا پاتے ہیں۔ کچھ ممالک خود کو غیر جانبدار کھنے کی کوشش کئے ہوئے ہیں۔

شمالی کوریہ پر امریکہ باتوں کی حد تک تو بہت آگے تک جاتا ہے مگر عملی طور پر یہاں بھی وہ خود کو بچائے رکھتا ہے۔ جبکہ لوگ کہتے ہیں کہ چین شمالی کوریہ کو مدد کررہا ہے۔ یہ بات پکی ہے کوئی غیرجانبدار رہے یاجانبدار اگر ان دونوں نے کوئی محاظ کھول لیا تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے ۔ ہوسکتا ہے بنی نوع انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :