میڈیا اور حکومت

منگل 11 فروری 2020

Hussain Jan

حُسین جان

حسن نثار کبھی بھی میرا پسندیدہ کالم نگار یا اینکر پرسن نہیں رہا۔ ان کا اپنا ایک مزا ج ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ایک دفعہ ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔ ایک اچھے انسان ہیں مگر صحافت میں تھوڑی سی سخت زبان استعما ل کرتے ہیں ۔ایک وقت تھا جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو نثار صاحب ان کے سب سے بڑئے حمایتی تھے۔ ایک صحافی کی اپنی پسند نا پسند بھی ہوتی ہے۔

اور یہ پسند نا پسند رائے عامہ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب عمران خان حکومت میں آئے تو بہت جلد بہت سے نام نہاد دانشوروں ،کالم نگاروں اور اینکرز نے اپنی توپوں کا رُخ حکومت کی طرف کر دیا۔ سونے پہ سوہاگہ حکومت نے بھی اپنے ناقدوں کو پورا موقع دیا۔ حسن نثار تو ایک کردار ہے اس کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرئے صحافی بھی جو کبھی پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے تھے اس کی مخالفت میں آگئے۔

(جاری ہے)

 
موجودہ دور کو دیکھیں تو جب تک آپ میڈیا کو مطمن نہیں کرپاتے تب تک عوام میں پذیرائی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو بہت سے صحافی اور میڈیا مالکان ایسے بھی ہیں جو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ دوسرئے اداروں کو بھی بلیک میل کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کے پاس تو اشتہار کا لالچ ہوتا ہے۔ اگر ان میڈیا مالکان کو حکومت کی طرف سے اشتہاروں کا اجرا شروع ہوجائے تو پھر یہ حکومتوں کے گیت الاپنے شروع کردیتے ہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں ہم نے دیکھا کہ کیسے جمہوری حکمرانوں نے غریب عوام کے ٹیکسوں کا اربوں روپیہ اشتہاروں کی مد میں اُڑا دیا تھا۔ موجودہ حکومت ابھی تک تو اس لعنت سے بچی ہوئی ہے۔ اور اس کا خمیازہ بھگتنا بھی پڑ رہا ہے کہ ملک کا تقریبااسی فیصد میڈیا حکوموت کے خلاف ہوچکاہے۔
ایک بات پر سب متفق ہیں کہ موجودہ حکومت ابھی تک کسی بڑئے کرپشن سکینڈل میں ملوث نہیں۔

لیکن کچھ غلطیاں ضرور ہورہی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو مہنگائی نے عوام کو حکومت سے کافی حد تک بذن کردیا ہے۔ اگر جلد ہی حکومت کی طرف سے مثبعت اقدامات نا کیے گئے تو اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلیں گے۔ بجلی گیس کے بلوں نے بھی عوام کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاروباری لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ لاگت بڑھتی جارہی ہے منافع کم ہوتا جارہا ہے۔

ایسے میں مافیا بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ زخیرہ اندوز دن رات ضروریات زندگی کی اشیاء کو زخیرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ جیسے ہی لوگوں میں کسی چیز کی مانگ بڑھتی ہے یہ مافیا دگنے داموں چیزیوں کو مارکیٹ میں لے آتا۔ 
ہمارے میڈیا والے بڑئے فخر سے کہتے ہیں کہ میڈیا ہمیشہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست نہیں۔

میڈیا کو چاہیے کہ لوگوں میں انتشار کی سی کفیت پیدا نا کرئے بلکہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے بارئے میں بتائے۔ اب ہمارئے ہاں یہ ہوتا ہے کہ ایک اینکر کسی بھی سڑک کا انتخاب کرتا ہے اپنا کیمرہ اور مائیک پکڑتاہے لوگوں سے حکومتی کارکردگی کے حوالے سے رائے لینا شروع کردیتا ہے۔ ان کا پروگرام تقریبا بیس پچیس منٹ کا ہوتا ہے۔

اتنے سے وقت میں آپ کتنے لوگوں کا انٹرویو کرسکتے ہیں۔ اور کیا چند لوگوں کی باتوں سے حکومتی کارکردگی کو جانچاجاسکتاہے؟اگر آپ لوگوں نے ایک صحافی کی ویڈیو دیکھی ہو تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔اس ویڈیو میں اینکر پانی میں کھڑے بچے سے پوچھتا ہے کہ بارش کے پانی میں آپ کیسے پھنسے تو بچہ جھٹ جواب دیتا ہے کہ میں پھنسا تو نہیں مجھے تو آپ نے کھڑا کیا تھا۔

اس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ حکومتوں کو گرانے کے لیے ہمارئے ملک کا میڈیا کسی حد تک بھی گر سکتا ہے۔ یہ لوگ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر تو وزیروں کے لتے لیتے ہیں اور جیسے ہی آف لائن جاتے ہیں یہی صحافی ان وزیروں کے تلوے چاٹتے نظر آتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت کے بارے میں اپنے کالموں میں ان کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہ فرشتے ہوں ۔ اپنے مخالفین کو شیطان صفت بنا کر پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

ایک بات یاد رکھنے کی ہے جب تک میڈیا مثبت کردار ادا نہیں کرتا ملک میں استحکام مشکل ہے۔ آپ حکومت پر تنقید ضرور کریں مگر یہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے تعمیر ہونی چاہیے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ملکی مسائل کو جلد ازجلد حل کرئے۔ جب سیاستدان ووٹ مانگنے عوام میں جاتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا کہ میں اگر حکومت میں آگیا تو سب سے پہلے تو یہ دیکھوں گا کہ خزانہ بھرا ہے یا نہیں ۔

یا ملک کے حالات اچھے ہیں یا نہیں۔ بلکہ وہ کہتا ہے میں اقتدار میں آکرکے عوام کے مسائل ہر حال میں حل کروں گا۔ ہاں اس کے لیے کچھ وقت درکارہوتا ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کو کم و پیش دو سال ہونے والے ہیں۔ لوگ اب پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ مسائل کو حل کرنے میں اور کتنا وقت لگے گا۔ تعلیم اور صحت کے معاملات کو بھی جلدی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صحت کارڈ کے حوالے سے مزید کام ہونا باقی ہے۔ اچھے اچھے سکول اور ہسپتال بنائیں تاکہ عوام اچھی تعلیم اور بہتر علاج حاصل کرسکے۔ جب تک میڈیا اور حکومت مل کرکام نہیں کرتے مسائل کا بروقت حل مشکل ہے۔ لہذا میڈیا کو ہر حال میں لوگوں کو پرسکون رکھنا چاہیے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :